سپریم کورٹ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کیس میں آج کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا جبکہ اٹارنی جنرل کی طرف سے عدالت عظمی کو کسی ملزم کو سزائے موت اور لمبی سزا نہ دینے کی یقین دہانی کروائی گئی۔
سپریم کورٹ میں درخواستیں یکم اگست کو سماعت کے لیے مقرر کردی گئی ہیں۔
مزید پڑھیں: خصوصی عدالتیں اوپن سماعت کرینگی، سپریم کورٹ کو آگاہ کیے بغیر ٹرائل شروع نہ کیے جائیں، چیف جسٹس
تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے اپیل کا حق دینے کے معاملے پر وقت مانگا، اٹارنی جنرل کو ہدایات لینے کے لیے وقت دیا جاتا ہے، اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں عدالت کو یقین دہانیاں کروائیں، اٹارنی جنرل کے کیس کے میرٹس پر دلائل جاری ہیں۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کروائی کہ ابھی تک زیر حراست کسی شہری پر سزائے موت یا عمر قید کی دفعہ نہیں لگائی، اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کروائی کہ آج تک کسی زیر حراست شہری کا ملٹری ٹرائل شروع نہیں ہوا، اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کروائی کہ عدالت کو پیشگی بتائے بغیر ملٹری ٹرائل شروع نہیں ہوگا۔
مزید پڑھیں: حکومت کی سپریم کورٹ سے خصوصی عدالتوں کیخلاف درخواستیں خارج کرنے کی استدعا
عدالتی حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے یقین دلایا کہ دوران سماعت ملزم شہریوں کے اہلخانہ اور قانونی ٹیم موجود ہوں گے، فوجی عدالت میں عام کورٹس کی ہی طرح قانون کے مطابق شواہد ریکارڈ کیے جائیں گے، اٹارنی جنرل نے یقین دلایا ملٹری کورٹس کے فیصلے میں تفصیلی وجوہات بھی دی جائیں گی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 6 رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت کی، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی اور جسٹس عائشہ ملک بینچ میں شامل تھے۔
اٹارنی جنرل کے دلائل سننے کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ نظام عدل میں عدلیہ کی آزادی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، عدلیہ کی آزادی کو سپریم کورٹ بنیادی حقوق قرار دے چکی ہے، ہم ٹرائل کورٹ پر سب کچھ نہیں چھوڑ سکتے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کیس میں جو ہوگا وہ قانون سازی کے ذریعے ہی ممکن ہے، آپ کے مطابق ابھی ٹرائل شروع نہیں ہوا تفتیش چل رہی ہے، ٹرائل شروع ہونے سے قبل عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا جائے گا، نوٹ کر رہے ہیں کہ کوئی ٹرائل شروع نہیں کیا جائے گا، شواہد ریکارڈ کیے جائیں گے اور ٹرائل کھلی عدالت میں ہوگا، گرفتار افراد پر دماغی یا جسمانی تشدد نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت چلی بھی گئی تو حکم کی خلاف ورزی پر متعلقہ ذمہ دار کو طلب کرکے جواب لیں گے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ ملزمان کو اپنے دفاع کیلئے فوجی عدالتوں میں بہت کم وقت دیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں زیر حراست افراد کو بنیادی حقوق ملنے چاہئیں، زیر حراست افراد کو اہل خانہ سے ملاقات کی اجازت ہونی چاہیے۔
اٹارنی جنرل کے دلائل کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم کسی ریٹائرڈ جج کو 102 افراد سے ملاقات کے لیے فوکل پرسن مقررکرسکتے ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس حوالے سے میں آپ کو ان چیمبر بتاؤں گا۔
اٹارنی جنرل کے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ حکومت نے 9 مئی کے واقعات کے بعد فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف مقدمات ملٹری کورٹ میں چلانے کا فیصلہ کیا تھا اور متعدد افراد کے مقدمات فوجی عدالت میں بھجوائے جا چکے ہیں۔
اس فیصلے سے قبل آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی سربراہی میں ہونے والی فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کے دوران اس عزم کا اظہارکیا گیا تھا کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد اوران کے سہولت کاروں اورماسٹرمائنڈز کو کٹہرے میں لایا جائے گا۔
فوجی عدالتوں میں سویلین مقدمات کیخلاف درخواستیں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، سینیئر وکیل اعتزاز احسن، کرامت علی اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے دائر کر رکھی ہیں۔