وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ قرآن، تورات اور بائبل کی بے حرمتی عالمی امن کو خطرے میں ڈال سکتی ہے، اوآئی سی کو امت مسلمہ کے احساسات کی ترجمانی پر تاریخی کردار ادا کرنا ہوگا۔
سویڈن میں قرآن پاک کی ایک بار پھر بے حرمتی پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنی ٹویٹ میں وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا تھا کہ کوئی بھی مہذب معاشرہ آزادی اظہار کے نام پر مقدس شخصیات، شعائر اور کتاب الہی کی بے حرمتی کی اجازت نہیں دیتا۔
وزیراعظم نے کہا کہ قرآن، تورات اور بائبل کی بے حرمتی کی اجازت دینا ایک مذموم، گھناؤنے اور گھناؤنے ایجنڈے کا حصہ ہے، جس کا واحد مقصد عالمی امن کو خطرے میں ڈالنا ہوسکتا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ مذہبی منافرت پھیلانے، تشدد کو فروغ دینے اور دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی حوصلہ افزائی کرنے والے رویوں کو روکنے کی ضرورت ہے، انہوں نے او آئی سی اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ آگے آئیں اور مقدس کتب کی بے حرمتی جیسے مکروہ عمل کو ختم کرنے کے لئے اقدامات کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں مٹھی بھر شیطانی کرداروں کو امن، رواداری اور تکثیریت کی ہماری مشترکہ اقدار کو کمزور کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اس شیطانیت کے تدارک کی مشترکہ حکمت عملی بنائیں گے، اوآئی سی کو امت مسلمہ کے احساسات کی ترجمانی پر تاریخی کردار ادا کرنا ہے۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات کا تسلسل اور ترتیب ثبوت ہے کہ یہ اظہار کا نہیں بلکہ سیاسی اور شیطانی ایجنڈے کا حصہ ہے، پورے عالم اسلام اور مسیحی دنیا کو مل کر اس سازش کو روکنا ہوگا، یہ نفرت کا فروغ ہے جس کی عالمی قانون اجازت نہیں دیتا، یہ رویے قانونی اور اخلاقی دونوں لحاظ سے ہی شدید قابل نفرت اور قابل مذمت ہیں۔
واضح رہے کہ سویڈن میں رہنے والے ایک شہری سلوان مومیکا کی جانب سے ایک بار پھر قرآن کی بے حرمتی کرتے ہوئےعراقی پرچم کی تذلیل کی گئی ہے۔
قرآن پاک کی متعدد بار بے حرمتی کرنے والے شخص کا نام سلوان مومیکا ہے، جوعراقی صوبے موصل کے ضلع الحمدانیہ سے تعلق رکھتا ہے۔
سلوان نے سویڈن میں پناہ حاصل کرنے سے قبل عراقی شہر نینوا میں ملیشیا کی سربراہی بھی کرچکا ہے۔ یہ شخص دھوکا دہی سمیت متعدد کیسز میں عراق کو مطلوب ہے۔
سلوان کئی سال قبل سویڈن فرار ہو گیا تھا اور اس کی حوالگی سے متعلق عراقی حکومت کی جانب سے باقاعدہ طور پر سویڈش حکومت سے درخواست بھی کی گئی ہے۔ لیکن تاحال سویڈن کی حکومت کی جانب سے سلوان کو عراقی حکومت کے حوالے نہیں کیا گیا۔