بھارتی ریاست منی پور میں فوجی دہشت گردی کے دوران خواتین کو برہنہ پریڈ کرانے والے کا گھر نذر آتش کردیا گیا۔
دو خواتین کو برہنہ کرکے سڑکوں پر گھمائے جانے کی ویڈیوز منظر عام پر آںے پر بھارت بھر میں شدید غصے کی لہر پھیل گئی جب کہ اس کے دو روز بعد چند افراد نے مرکزی ملزم کا گھر جلا ڈالا۔
واقعے کی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مظاہرین کے ایک گروپ نے ملزم کے گھر کو آگ لگا دی۔
واضح رہے کہ منی پور میں مردوں کے ایک گروپ نے دو خواتین کو برہنہ سڑک پر گھمایا، اوباشوں نے خواتین کے ساتھ نازیبا حرکات کیں اور بعد ازاں انہیں کھیتوں میں لے جاکر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
ویڈیو میں موجود متاثرہ خواتین میں سے ایک کی عمر 20 برس جبکہ دوسری کی 40 بتائی گئی ہے۔
واقعہ کانگپوکپی ضلع کے ایک گاؤں میں تین مئی کو شمال مشرقی ریاست میں نسلی تشدد پھوٹنے کے ایک دن بعد پیش آیا تاہم یہ خوفناک فوٹیج بدھ کے روز ہی منظر عام پر آئی اور انٹرنیٹ پر عائد پابندی ختم ہونے کے بعد وائرل ہو گئی۔
ویڈیو کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے منی پور پولیس نے چہارشنبہ کی رات نامعلوم افراد کے خلاف ضلع تھوبل کے نونگپوک سیکمائی پولیس اسٹیشن میں اغوا، اجتماعی عصمت دری اور قتل کا مقدمہ درج کیا تھا۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق اس واقعے کے سلسلے میں چار لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
گزشتہ روز منی پور کے وزیر اعلی این بیرین سنگھ کا کہنا تھا کہ اس واقعے کی مکمل تحقیقات کی جارہی ہے، مجرموں کو ممکنہ سزائے موت سمیت ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
تین مئی کو منی پور میں نسلی تشدد شروع ہونے کے بعد سے اب تک 150 سے زیادہ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق واقعہ 4 مئی کو پیش آیا لیکن اس گھناؤنے جرم کی ویڈیو پارلیمنٹ کے مون سون سیشن شروع ہونے سے ٹھیک ایک دن پہلے یعنی 19 جولائی کو سامنے آئی۔
رپورٹس میں بتایا گیا کہ منی پور میں این بیرین سنگھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت کے قریبی ذرائع نے ویڈیو کے اجراء کے وقت کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔
ایسا نہیں کہ یہ واقعہ صرف ویڈیو کی وجہ سے منظر عام پر آیا ہے۔ تقریبا 40 خاندانوں کی بستی بی فینوم گاؤں کے 65 سالہ سربراہ تھانگ بوئی ویفی نے 18 مئی کو سیکول پولیس اسٹیشن میں اس واقعے کے خلاف شکایت درج کرائی تھی۔
ایک مقامی خبر رساں ادارے نے 4 جون کو اس واقعہ اور اس کے بعد گاؤں کے سربراہ کی شکایت کے بارے میں ایک خبر شائع کی تھی تاہم اس کے باوجود، منی پور پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے میں ایک ماہ سے زیادہ کا وقت لگا تھا۔
جولائی کو ویڈیو سامنے آنے تک ایف آئی آر پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔وزیراعلیٰ بیرین سنگھ نے اس تاخیر کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران قتل، آتش زنی اور یہاں جنسی استحصال کے بارے میں کئی ایف آئی آر درج کی گئیں اور پولیس ٹیموں پر بہت زیادہ بوجھ ہے حالانکہ معاملوں کی پوری طرح سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق پہلی بار شکایت درج کرنے کے بعد ایک خبر شائع کی گئی تھی اور آخر کار اس معاملے کا مقدمہ درج کیا گیا، اس پورے عمل میں ایک ماہ کا عرصہ لگا جب کہ شکایت یا نیوز رپورٹ میں ویڈیو کا کوئی ذکر ہی نہیں تھا۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ پولیس اب اس ویڈیو کی تحقیقات کر رہی ہے لیکن غیر سرکاری اکاؤنٹس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ویڈیو حکمران جماعت اور حزب اختلاف دونوں سے تعلق رکھنے والے کچھ سیاسی رہنماؤں نے جاری کی ہوگی۔