امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی اور الیکشن کمیشن نے جماعت اسلامی سے نہیں کراچی سے زیادتی کی ہے، عوام کو الیکشن کمیشن کےعمل کے خلاف مزاحمت کرنا ہوگی۔
”آج نیوز“ سے خصوصی بات کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کی جن یوسیز میں ہم نے کامیابی حاصل کی وہ 45 ہزار ووٹرز والی یوسیز ہیں، اور جہاں سے پپیپلزپارٹی جیتی ہے وہاں اوسط ووٹرز کی تعداد 12 سے 15 ہزار ہے، یہ پلاننگ پہلے ہی کی جاچکی تھی۔
حافظ نعیم نے کہا کہ تمام تر صورتحال کے باوجود پیپلزپارٹی نے کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں کم سیٹیں حاصل کیں، جس کی کسر انہوں نے الیکشن کمیشن، ریٹرنگ آفیسر (آراوز) اور ری کاؤنٹنگ کے بہانے نکالی اور ہماری وہ 14 سیٹیں جن پر ہم جیت چکے تھے پیپلزپارٹی نے لے لیں، لیکن پھر بھی ہمارے پاس 87 سیٹیں موجود تھیں۔
امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی دونوں ہی اپنی سیٹوں کی بدولت کراچی کا میئر نہیں بناسکتی تھیں، جس پر پیپلزپارٹی نے ن لیگ، جے یو آئی کے ساتھ چلی گئی اور ان کی مجموعی سیٹیں 173 ہوگئیں، جماعت اسلامی پی ٹی آئی کے ساتھ چلی گئی تو ہماری سیٹیں 193 ہوگئیں۔
حافظ نعیم نے کہا کہ سیٹوں کے واضح فرق سے ہم ریاضی، آرٹس یا سائنس سمیت کسی بھی حساب سے جیت چکے تھے، اور صرف رسمی کارروائی باقی تھی، لیکن پھر پیپلزپارٹی اس ریاضی میں بھی کامیاب ہوگئی جسے گلگت بلتستان اور کشمیر میں ہوا، ماضی میں بلوچستان میں ہوا، اور سینیت الیکشن میں جب ان کے پاس 8 سیٹیں تھیں اور انہیں دو سینیٹرز بنانے کے لئے 28 سیٹیں چاہئے تھیں تو آصف زرداری نے وہ بھی پورے کرلئے تھے، بالکل اسی طرح 173 زیادہ اور 193 سیٹیں کم ہوگئیں، اس سائنس کی بنیاد پر قبضہ کرکے کراچی کا میئر بنایا گیا، جسے ہم چیلنج کررہے ہیں، کیوں کہ اس شہر میں جماعت اسلامی کے ووٹ زیادہ ہیں۔
حافظ نعیم نے کہا کہ پیپلزپارٹی سے ہمارا اختلاف بہت پرانا ہے، لیکن ہماری ان سے اس بنیاد پر بات ہوسکتی تھی کہ وہ ہمارا مینڈیٹ تسلیم کرلیتے، جتنے ووٹ ہمیں ملے یا جتنی سیٹیں ہم جیتے تھے وہ مان لی جاتیں، تو ہم کراچی کے بہتری کے لئے ان سے بات چیت بھی کرتے اور بہت کچھ حاصل بھی کرتے، لیکن پیپلزپارٹی نے اپنی ٹانگ اوپر رکھنے کے لئے اپنے نمبرز زیادہ کرنے کی کوشش کی، اور آخر میں حد ہی کردی جب 31 بندے ہی غائب ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ جب یہ رویہ رکھا جائے اور قبضہ سیاست ہوگی تو ہم کسی سے بات نہیں کرسکتے، پھر ہم اصول کے ساتھ کھڑے ہوں گے، ان حالت میں جب طاقت قوت الیکشن کمیشن اراوز عملہ مشینری اور سب کچھ انہوں نے لگالیا اس کے باوجود بھی 87 یونین کمیٹیاں ہماری ہی ہیں اور 9 ٹاونز ہم جیتے ہوئے ہیں، اور جو مرکزی شہر ہے وہ جماعت اسلامی کے پاس ہے۔ ہمارے ووٹ پیپلزپارٹی سے 40 فیصد زیادہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں کسی پر الزام نہیں لگاتا لیکن بہت سے باتیں سامنے آئی ہیں، اس کے باوجود اتنا کہتا ہوں کہ کراچی شہر میں ایک طویل عرصے کے بعد انتخابات ہوئے، عوام نے اپنے مرضی کے لوگوں کو منتخب کیا، اور جو منتخب ہوتا ہے وہ منتظر ہوتا ہے کہ کب میئر کے الیکشن میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرے، لیکن 31 زندہ انسان نہ پہنچیں تو اس کا مطلب کہ وہ بک گئے، تو ہارس ٹریڈنگ ہے جو غلط ہے، یا انہیں زبردستی روکا گیا تو یہ ظلم اور جمہوریت کے خلاف ہے، کسی بھی صورت میں یہ ہاوس کے لوگ اگر اجلاس میں نہیں پہنچے تو جمہوریت پر شب خون مارا گیا ہے، جس کی تحقیقات ضروری ہے۔
حافظ نعیم نے کہا کہ ہم نے الیکشن کمیشن کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ویڈیوز آرہی ہیں، جن میں کوئی کہہ رہا ہے کہ میں رتو ڈیرو میں ہوں اور کوئی کلفٹن میں یا درانی فارم ہاوس میں، تو ایک دن کوئی کہتا ہے میں مجبور ہوں اور دوسرے روز کہتا ہے کہ میں ضمیر کی آواز پر جاگا ہوں، اس کا مطلب دال میں کالا نہیں پوری دال ہی کالی تھی، پوری دنیا کو پتہ چل گیا لیکن الیکشن کمیشن کو پتہ نہیں چلا۔
کراچی کے الیکشن نے ناصرف پاکستان بلکہ دنیا میں بسنے والے تمام اوورسیز پاکستانیوں میں یہ سوال پیدا کردیا ہے کہ جو الیکشن کمیشن ایک شہر کا بلدیاتی الیکشن نہیں کراسکتا، یا میئر کا الیکشن جو سب کے سامنے تھا وہ نہیں کراسکا تو پورے پاکستان کے الیکشن کیسے کرائے گا، اگر یہی قبضہ ہی کرنا ہے تو عوام کے پیسے کیوں ضائع کررہے ہیں، اس سوال کا جواب عوام کے پاس ہے، جسے چاہئے کہ وہ اس حالیہ میئر کے الیکشن کے سارے عمل کی مزاحمت کرے اور اپنی موجودگی کا احساس دلائے۔
ہم بھی مایوس ہوسکتے تھے، عوام نے بڑی امید کے ساتھ ہمیں ووٹ ڈالا، آپ عوام میں جاکر سروے کرلیں، وہ کہتے ہیں کہ زیادتی ہوئی ہے، زیادتی جماعت اسلامی یا میرے ساتھ نہیں ہوئی بلکہ کراچی کے ساتھ ہوئی ہے، پیپلزپارٹی کو لوگ جانتے ہیں، عوام کی افسردگی مایوسی میں بدل رہی تھی، جسے جماعت اسلامی نے امید سے تبدیل کیا ہے۔