کارنیگی میلن یونیورسٹی میں محققین نے تقریباً ہر گھر میں پائی جانے والی ٹیکنالوجی کو ٹریکنگ سسٹم میں تبدیل کر دیا ہے۔
محققین نے وائی فائی راؤٹرز کو دیوار کے پار دیکھںے والا آلہ بنا دیا۔
وائی فائی راؤٹرز سے خارج ہونے والے ریڈیو سگنلز کا استعمال کرتے ہوئے محققین ایک کمرے کے اندر انسانی اجسام کی تھری ڈی شکل، حرکات کی شناخت اور نگرانی کرنے میں کامیاب رہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ انہوں نے کیمروں یا مہنگے LiDAR آلات کا سہارا لیے بغیر یہ کامیابی حاصل کی۔
محققین نے اپنے مطالعہ میں لکھا، ’ہمیں یقین ہے کہ وائی فائی سگنلز بعض صورتوں میں انسانوں کی شناخت کے لیے آر جی بی امیجز کے لیے ہر جگہ متبادل کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔‘
مطالعے میں کہا گیا کہ ’اندرونی نگرانی کے لیے استعمال ہونے والے وائی فائی پر مبنی اس حل پر روشنی اور موجودگی کا بہت کم اثر ہوتا ہے اور اس کا مطلوبہ سامان مناسب قیمت پر خریدا جا سکتا ہے۔‘
محققین نے مطالعے میں ڈینس پوز کا استعمال کیا، ایک ایسا نظام جو خاص طور پر ایک تصویر میں انسانی جسم کی سطح پر ہر پکسل کو مختص کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، جسے فیس بک کی اے آئی لیبارٹری اور لندن میں مقیم ایک گروپ کی ایک تعاونی ٹیم نے بنایا ہے۔
ڈینس پوز کی طاقت انسانی اناٹومی میں دو درجن سے زیادہ اہم پوائنٹس اور زونز کا پتہ لگانے کی صلاحیت میں مضمر ہے، جیسے جوڑ اور جسم کے مختلف اعضاء، سر اور دھڑ۔
یہ بھی پڑھیں: وائی فائی ہمیں کیا نقصان پہنچا رہا ہے؟
اس وسیع ڈیٹا کو ایک گہرے نیورل نیٹ ورک کے ساتھ مربوط کر کے، ٹیم نے کامیابی کے ساتھ وائی فائی سگنلز کا ایک نقشہ بنایا، یہ سگنلز راؤٹرز کے ذریعے انسانی جسموں کے مخصوص پوائنٹس سے ٹکرا کر واپس لوٹے۔
محققین نے اس تکنیک کو تین سستے وائی فائی راؤٹرز اور تین متعلقہ ریسیورز کا استعمال کرتے ہوئے مکمل کیا، جس سے کمرے کی دیواروں کے گرد وائی فائی سگنلز گردش کرنے لگے۔
اس نظام کو جامد اشیاء کو نظر انداز کرنے اور حرکت پذیر اشیاء سے ٹکرانے والے سگنلز پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔
یہ عمل اس وقت بھی مؤثر ثابت ہوا جب ایک دیوار راؤٹرز اور افراد کے بیچ آگئی۔
اس نے وائی فائی راؤٹرز کو مختلف مبہم اشیاء جیسے ڈرائی وال، لکڑی اور یہاں تک کہ کنکریٹ کی دیواروں کے پار بھی دیکھنے کی اجازت دی۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب محققین ایک ٹریکنگ سسٹم بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں جو دیواروں کے پار دیکھ سکتا ہو۔
لیکن کارنیگی میلن کا نیا مطالعہ ہائی ریزولوشن تصاویر بنانے کے قابل ہے۔ آپ یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ لوگ اپنی حرکات سے کیا کر رہے ہیں۔