سپریم کورٹ میں خصوصی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل سے متعلق کیس میں اٹارنی جنرل کی لارجر بینچ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کردی گئی۔ چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ججز دستیاب نہیں، فل کورٹ تشکیل دینا ناممکن ہے۔ کیس کی سماعت کل پھرہوگی۔
چیف جسٹس آف پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 6 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
لارجر بینچ کے دیگرججز میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عاٸشہ ملک شامل ہیں۔
اٹارنی جنرل نے فل کورٹ کی تشکیل سے متعلق دلائل دیے۔ منصورعثمان کے دلائل سننے کے بعد چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اس وقت ججز دستیاب نہیں، فل کورٹ تشکیل دینا ناممکن ہے۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ کل دوبارہ کیس کی سماعت کریں گے، اٹارنی جنرل صاحب آپ بھی سوچیں، ہم بھی آپس میں مشاورت کریں گے۔
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال میں فل کورٹ کو یہ معاملہ سننا چاہیے۔
اس سے قبل جب سماعت کا آغاز ہوا تو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل عابد زبیری نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نمائندگی کر رہا ہوں، میں نے تحریری جواب جمع کرا دیا ہے۔
عابد زبیری کی بات سننے کے بعد چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ آپ دلائل کا آغاز کریں۔
عابد زبیری نے کہا کہ عدالت کی توجہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی طرف دلانا چاہتا ہوں، فیصلےمیں کہا گیا ٹرائل کیلئے آئینی ترمیم درکار ہوگی۔ بنیادی حقوق معطل والا قانون لاگو نہیں ہوسکتا، نکتہ یہ ہے کہ الزامات سے ملزمان کا تعلق کیسے جوڑا جائے گا۔
عابد زبیری کا کہنا تھا کہ افواج کی تحویل میں موجود سویلینز کا فوجی ٹرائل آئینی ترمیم کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مطابق سویلنز کو آئینی تحفظ ہے، کیا سو یلنز کے فوجی ٹرائل کیلئےآئینی ترمیم ہونا ضروری ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ ملزمان کا دفاع یا افواج کیخلاف تعلق جوڑنا ضروری ہے؟
جس پرعابد زبیری نے کہا کہ پہلے سویلنز کا فوج یا دفاع کیخلاف تعلق جوڑنا ضروری ہے، اگر ملزمان کا فوج یا دفاع سے کوئی تعلق ہے تو پھر آئینی ترمیم ناگزیر ہے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ملزمان کا تعلق جوڑنا ٹرائل کی پہلی ضرورت ہے۔ آپ کے مطابق تعلق ہونے پر بھی آئینی ترمیم کے بعد ہی ٹرائل ہوسکتا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جن فیصلوں کا آپ حوالہ دے رہے ہیں، یہ اس وقت کے ہیں جب فوجی ٹرائل سے متعلق آئینی ترمیم نہیں ہوئی تھی۔
درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ ماضی میں ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کی اجازت مخصوص وقت کیلئے دی گئی، عام شہریوں کا آرٹیکل 175 کے مطابق ملٹری ٹرائل نہیں ہوسکتا۔
چیف جسٹس بولے آپ کے مطابق ملٹری کورٹس میں ٹرائل سے بنیادی حقوق معطل ہوجاتے ہیں، اگر عام شہری ملکی دفاع کیخلاف کام کریں تو پھر کیا ہوگا۔
وکیل نے جواب دیا ملک کی سلامتی یا دفاع کیخلاف عام شہری ملوث پائے جائیں تو پھر بھی آئینی ترمیم لازمی ہے، خصوصی عدالتوں کے قیام کیلئے آئینی ترمیم ضروری ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کہہ رہے ہیں ملزمان کا تعلق جوڑنا ٹرائل کیلئے پہلی ضرورت ہے؟ آپ کے مطابق تعلق جوڑنے اور آئینی ترمیم کے بعد ہی سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ لیاقت حسین کیس میں آئینی ترمیم کے بغیر ٹرائل کیا گیا تھا، ملزمان کا فوج سے اندرونی تعلق ہو تو کیا پھر آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں۔
اس موقع پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کورٹ آف لاء کی آپ کی نظر میں کیا تعریف ہے۔
وکیل نے جواب دیا کہ کورٹ آف لاء وہ ہے جہاں ملزمان کو فئیر ٹرائل اور وکیل کا حق ملے، سزاوں کیخلاف ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ اپنے مؤقف کو خلاصہ میں بیان کرسکتے ہیں، اگر ملزمان کا تعلق ثابت ہوجائے تو پھر کیا ہوگا۔
عابد زبیری بولے موجودہ صورتحال میں یہ ٹرائل آئینی ترمیم سے ہی ممکن ہے، اگر خصوصی ٹرائل کرنا ہے تو ترمیم سے خصوصی عدالت بنانا ہوگی۔
وکیل سے وضاحت مانگتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ خصوصی عدالت سے مراد آپ کی وہ عدالت ہے جو ہائیکورٹ کے ماتحت ہو۔
عابد زبیری نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ٹرائل کے بعد جوڈیشل ری ویو ملنا چاہیے، اکسیویں آئینی ترمیم ایک خاص مدت کے لیے تھی۔
وکیل نے استفسار کیا کہ کیا ملزمان کو آئینی درخواست دائر کرنے کی اجازت ہوگی؟
جس پر جسٹس یحییٰ بولے کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ٹرائل پہلے سول عدالتوں میں ہو؟
وکیل عابد زبیری نے جسٹس یحییٰ کی بات کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ جی بالکل ٹرائل پہلے سول عدالتوں میں ہونا چاہئے۔
سپریم کورٹ بار کے صدرعابد زبیری کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان روسٹرم پر آئے اور دلائل شروع کیے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے سامنے 21 ویں ترمیم اور لیاقت حسین کیس زیر بحث لایا گیا، لیاقت حسین کیس میں 9 رکنی بینچ نے سماعت کی تھی، انھوں نے مزید کہا کہ میں عدالت کے 23 جون کے حکمنامے کو پڑھوں گا۔
اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ سویلینز پر آرمی ایکٹ کا اطلاق کیسے ہوسکتا ہے؟
اٹارنی جنرل نے فل کورٹ کی تشکیل سے متعلق دلائل دینا شروع کیے اور 23 جون کے فیصلے میں جسٹس یحییٰ آفریدی کے نوٹ کا حوالہ دیا۔
منصور عثمان نے سپریم کورٹ سے جسٹس یحییٰ آفریدی کے نوٹ کیساتھ فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی۔ انھوں نے کہا کہ جسٹس یحیٰ آفریدی نے نوٹ میں لکھا تھا کہ موجودہ صورتحال میں فل کورٹ کو یہ معاملہ سننا چاہیے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جسٹس یحیی آفریدی کے مؤقف کی تائید میں فل کورٹ بنانے کی استدعا ہے، آرمی ایکٹ سے متعلق یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے اسے فل کورٹ کو سننا چاہیے۔
اس موقع پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ نے گزشتہ سماعت پر ایک ممبر پر اعتراض کیا، اب فل کورٹ بنانے کی استدعا کیسے کررہے ہیں۔
جسٹس عائشہ کے ریمارکس پر اٹارنی جنرل بولے دستیاب ممبران پر مشتمل بنچ بنانے کی استدعا کی ہے۔ جس پر جسٹس عائشہ بولیں، کون یہ فیصلہ کرے گا کہ کون سے ججز دستیاب ہیں۔
اٹارنی جنرل بولے اس حوالے سے فیصلہ تو چیف جسٹس نے کرنا ہے، جس پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ نے یہ کیسے سوچ لیا کہ چیف جسٹس نے دستیاب ممبران پر بینچ نہیں بنایا ہوگا۔
جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ میرا خیال ہے کہ آپ اپنے دلائل اسی بینچ کےسامنے جاری رکھیں، آپ نے ماشاء اللہ اتنا تفصیلی جواب جمع کرایا ہے اس پر دلائل دیں، آپ حکومت کی ہدایت پر فل کورٹ کی استدعا کر رہے ہیں؟
اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس عدالت کے ہر جج کو میں بے حد احترام دیتا ہوں، تمام ججز کی رائے کو دیکھا جاتا ہے، جسٹس یحیی آفریدی نے فل کورٹ کے علاوہ عدالتی اعتماد کی بات کی، یہ کیس تعطیلات کے دوران مقرر ہوا، تعطیلات کے دوران تمام ججز دستیاب نہیں ہوتے، ججز کو کیس کی سماعت کیلئے اسلام آباد میں رہنے کا کہا تھا۔ حکومت نے بینچ پر اعتراض کیا تو مجھے حیرانگی ہوئی، جسٹس منصورعلی شاہ بنچ سے الگ ہوگئے۔
سینئر قانون دان عرفان قادر نے روسٹرم پر آکر بات کرنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے انھیں روک دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ محترم آپ مہربانی فرما کربیٹھ جائیں آپ کو بعد میں سنیں گے۔
وفاق نے گزشتہ روز سپریم کورٹ میں جواب جمع کروا یا تھا۔ جس میں عدالت عظمیٰ سے تمام درخواستیں خارج اور معاملہ فل کورٹ کے سامنے مقرر کرنے کی استدعا کی گئی۔
وفاق کی جانب سے سپریم کورٹ سے تمام درخواستیں خارج کرنےکی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان درخواستوں کے اندر انتہائی اہم حساس معاملےکو سامنے لایا گیا ہے۔
وفاقی حکومت کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ براہ راست اس کیس کو نہ سنے۔
حکومت کی جانب سے موقف اپنایا گیا ہے کہ فوجی و دفاع تنصیبات پرحملہ نیشنل سیکورٹی کا معاملہ ہے اس لیے 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کا خصوصی عدالتوں میں ٹرائل مناسب ہے۔
یاد رہے کہ سیکرٹ ایکٹ کے تحت تمام اقدامات قانون کے مطابق درست ہیں، اس حوالے سے صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری کی درخواست قابل سماعت قرار دی گئی ہے۔
گزشتہ سماعت میں اٹارنی جنرل نے ملٹری کسٹڈی میں 102 افراد کے ناموں سمیت تفصیلات عدالت میں جمع کرواٸی تھی۔