افغان گلوکارہ حسیبہ نوری کے مبینہ قتل کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی تھی، جس کو ملالہ یوسفزئی کے والد ضیا الدین یوسفزئی سمیت کئی صارفین کی جانب سے سوشل میڈیا پر شئیر کیا گیا۔
صحافی افتخار فردوس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر لکھا کہ ان کی ابھی افغان گلوکارہ حسیبہ نوری سے بات ہوئی ہے جن کے بارے میں یہ افواہ گردش کررہی تھی کہ ان کی خیبر پختونخواہ میں ہلاکت ہوگئی ہے۔
انہوں نے تصدیق کرتے ہوئے لکھا کہ حسیبہ نوری خیریت سے زندہ سلامت ہیں اور کراچی میں موجود ہیں لیکن سوشل میڈیا سمیت کچھ ویب سائٹس کی جانب سے ان کی موت کی خبر شئیر کی گئی تھی۔
افتخار فردوس نے افغان گلوکارہ کی گردش کرنے والی تصویر سے متعلق انہوں نے بتایا کہ حسیبہ نوری کی یہ تصویر اس وقت لی گئی تھی جب ان کا آپریشن ہو رہا تھا اور وہ بے ہوشی کی حالت میں تھیں۔
افغان گلوکارہ حسیبہ نوری کی ہلاکت کی خبر پر تبصرہ کرنے والوں ملالہ یوسفزئی کے والد ضیا الدین یوسفزئی بھی شامل ہیں۔
انہوں نے اصل خبر معلوم ہونے کے بعد معذرت کرتے ہوئے ٹوئٹ میں لکھا کہ غیر تصدیق شدہ خبر شیئر کرنے پر بہت افسوس ہوا، ان تمام لوگوں سے معذرت خواہ ہوں جنہوں نے اس پر تبصرہ اور شیئر کیا، میں اپنا ٹویٹ فوراً ڈیلیٹ کردوں گا۔
سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے رادیش سنگھ ٹونی نے ٹوئٹ میں لکھا کہ ’کابل سے اپنی زندگی بچانے کے لیے فرار ہونے والی حسیبہ نہیں جانتی تھی کہ خیبرپختونخوا ان کے اپنے ملک سے زیادہ خطرناک ہے۔
کینیڈا سے افغان کونسل کے ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ نے بھی حسیبہ نوری کی تصویر اور مبینہ قتل کی خبر شیئر کی تھی۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے استفسار کیا کہ ’پشاور میں گلوکارہ کا قتل کہاں ہوا ہے؟
ایک صحافی سید وکاس شاہ نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ خیبر پختونخوا پولیس سے اس کیس سے متعلق پوچھا، تو معلوم ہوا کہ ایسا کوئی کیس رجسٹر نہیں ہوا ہے۔
انہوں نے مزید لکھا کہ کوئٹہ میں نیند کی گولیوں کی زیادتی کے باعث ایک افغان خاتون کی موت ہوئی، تاہم اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی کہ وہ گلوکارہ حسیبہ نوری تھیں یا کوئی اور خاتون ہیں۔