تقریباً 60 سال قبل پاکستان نے ایک ایسا کارنامہ انکام دیا، جس نے اِسے نہ صرف بھارت بلکہ بیشتر مسلم اور ترقی پذیر ممالک سے بھی آگے لاکھڑا کیا تھا۔
یہ بات ہے جون 1962 کی، جب پاکستان خلا میں راکٹ بھیجنے والا ایشیا کا تیسرا اور مجموعی طور پر دسواں ملک بن گیا تھا۔ اور اس کی کہانی کافی ناقابل یقین ہے۔
پاکستان کے صدر ایوب خان امریکا کے سرکاری دورے پر تھے، جہاں امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے انہیں بتایا کہ ناسا اس دہائی کے آخر تک چاند پر انسان کو بھیجنے کی امید رکھتا ہے، لیکن اس کیلئے پاکستان سمیت بعض ممالک سے مدد درکار ہوگی۔
اس کے بعد ڈاکٹر عبدالسلام جو اس وقت اٹامک انرجی کمیشن کے سربراہ تھے، کو ناسا میں میٹنگ کے لیے بلایا گیا۔
جاتے جاتے انہوں نے اپنے ساتھ 27 سالہ طارق مصطفی کو بھی لے لیا، جو اس وقت یو ایس اٹامک انرجی کمیشن کے لیے کام کر رہے تھے۔
سپارکو کی تاریخی دستاویزات کے مطابق ناسا نے ان دونوں کے سامنے چاند پر انسان بھیجنے کا عزم ظاہر کیا اور انہیں بتایا کہ چاند کی طرف جانے سے پہلے راکٹوں کو زمین کے مدار میں رہنا ہوگا۔
جس کا مطلب تھا کہ انہیں سیارہ زمین کے ماحول کا انتہائی باریک ڈیٹا درکار ہوگا۔
بحر ہند کے اوپر کا علاقہ ڈیٹا کے لحاظ سے ایک ’بلیک ہول‘ تھا۔
اور ناسا کو اپنی کھوج شروع کرنے سے پہلے اس علاقے سے 30,000 فٹ اوپر کے حالات کے بارے میں علم کی ضرورت تھی۔
پاکستان کا جنوبی سرا بحر ہند سے ملتا تھا اور یہ اس کیلئے سود مند ثابت ہوا۔
امریکا نے جمع کیے گئے ڈیٹا کے بدلے مدد کی پیشکش کی۔
ستائیس سالہ طارق مصطفیٰ کو آپریشن کا انچارج بنایا گیا۔
صدر ایوب نے خود بلوچستان کے علاقے سونمیانی میں ایک ملٹری رینج تلاش کی جو لانچنگ پیڈ بن سکتی تھی۔
طارق مصطفیٰ نے اپنے سمیت پانچ افراد پر مشتمل ٹیم بنائی۔ جس میں ان کے علاوہ الیکٹرانکس کے ماہر سلیم محمود، محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر ایم رحمت اللہ، فلائٹ لیفٹیننٹ اے زیڈ فاروقی، ایک ریٹائرڈ ایئر فورس آفیسر اور کمیونیکیشن اسپیشلسٹ، اور مکینیکل انجینئر سکندر زمان بھی شامل تھے۔
ٹیم نے وطن واپسی سے قبل ناسا میں تربیت حاصل کی، اور ان کے پاس کام مکمل کرنے کے لیے کل نو ماہ تھے۔
سوڈیم بخارات کا تجربہ جون میں مون سون کے بادلوں کے آنے سے پہلے کرنا تھا۔
ٹیم نے بلوچستان کی گرمی میں کام شروع کیا۔ جو اتنی شدید ہوگئی کہ اکثر دن کے وقت کام روکنا پڑتا۔
ٹیم علی الصبح سے دوپہر تک کام کرتی اور پھر شام 4 بجے سے 9 یا 10 بجے تک دوبارہ کام کیا جاتا۔
صرف یہی نہیں، لانچ کیلئے بھی دن کے وقت صرف ایک چھوٹا سا وقت نکل سکا تھا۔ لانچ نہ تو غروب آفتاب سے پہلے کیا جانا تھا اور اس نہ اس کے کچھ دیر بعد۔
ایک انٹرویو میں طارق مصطفیٰ نے انکشاف کیا کہ سرکٹ کی خرابی کی وجہ سے اس دن لانچ تقریباً تاخیر کا شکار ہوگیا تھا، لیکن پانچ ذہین آدمی لانچر کی طرف بھاگے اور اس خرابی کا پتہ لگا لیا۔
پاکستان کا پہلا راکٹ ”رہبر ون“ 7 جون 1962 کو غروب آفتاب کے فوراً بعد لانچ کیا گیا۔ مشن کامیاب رہا اور مطلوبہ ڈیٹا کو ریکارڈ کرنے میں مدد ملی۔
بھارت بھی ناسا کے اسی پروجیکٹ کے ساتھ آن بورڈ تھا اور اس نے پاکستان کے فوراً بعد تھوبا رینج میں اپنا پروجیکٹ شروع کیا۔ لیکن انہیں اپنا راکٹ لانچ کرنے میں مزید ایک سال لگا۔