دنیا بھر میں پلاسٹک سرجری کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے۔ پاکستان میں بھی زیادہ تر لوگ پلاسٹک سرجری سے مراد چہرے یا خوبصورتی کو ابھارنے کیلئے کی جانے والی سرجری سے لیتے ہیں ۔ کیونکہ جدید دور کی خواتین میں بوٹو کس، آئی براؤز لفٹ، ناک کی سرجری ،فرلز، چک بون سرجری کی طرف رجحان زیادہ ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ۔
خوبصورتی میں اضافے کے علاوہ جلے یا کٹے ہوئے جسمانی اعضاء کی مرمت سمیت ہاتھ پیر کے نقائص کی مرمت کے لیے بھی پلاسٹک سرجری کی جاتی ہے۔
برطانیہ میں ہونے والی ایک کانفرنس میں پاکستانی معروف سرجن ڈاکٹر پروفیسر معظم تارڑ نے بتایا کہ پاکستان میں پلاسٹک سرجری کا آغاز80 کی دہائی کے آخر میں ہوا۔پاکستان میں اس حوالے سے لاہور کا جناح برن اینڈ ری کنٹریکٹیو سینٹر سب سے بڑا تصور کیا جاتا ہے۔
اس سینٹر سے سالانہ30ہزار سے زائد مریضوں کا معائنہ کیا جاتا ہے اور تقریباً ساڑھے تین ہزار سے زائد افراد کے بڑے پلاسٹک سرجری آپریشن ہوتے ہیں۔ زیادہ جھلسنے والے افراد جنہیں داخل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ان کا تناسب صرف ایک اسپتال میں ساڑھے چھ سو کے قریب ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پلاسٹک سرجری کے بارے میں عام تصور کاسمیٹک سرجری کا پایا جاتا ہے لیکن پاکستان میں95فیصد پلاسٹک سرجری جلے ہوئے حادثہ میں زخمیوں کی کی جاتی ہےیا ایسے مریضوں کا علاج ہوتا ہے جن کے ٹشوز متاثر ہوتے ہیں، جنہیں دوبارہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ کچھ پیدائشی نقائص ہیں جیسے کہ کٹے ہوئے ہونٹ، تالو، ہاتھ اور پاؤں کے نقائص، انہیں پلاسٹک سرجری کے ذریعے ٹھیک کیا جاتا ہے۔
معظم تارڑ کے مطابق پاکستان میں کینسرکا تناسب بھی بہت زیادہ ہے خصوصاً منہ کے اندر کا کینسر، چہرے یا چھاتی کا کینسر،اس طرح کے کیسزمیں بھی جب متاثرہ حصے کو کاٹ کر الگ کیا جاتا ہے تو اسے دوبارہ درست کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے جوکہ پلاسٹک سرجری کا ایک اہم حصہ ہے۔