چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے لیے بینچ تشکیل دے دیا۔
سپریم کورٹ کا 8 رکنی لارجر بینچ 21 جولائی کو پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرے گا۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر عملدرآمد روک دیا
جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر بینچ کا حصہ ہوں گے، اس کے علاوہ جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید بھی بینچ میں شامل ہوں گے۔
رجسٹرار آفس نے تمام درخواست گزاروں اور فریقین کو نوٹسز جاری کردیے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی 8 جون کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری
پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کو عید الاضحیٰ کے بعد دوبارہ سماعت کے لیے مقررکیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناع جاری کررکھا ہے۔
بینچز کی تشکیل کے حوالے سے منظور کیے گئے اس قانون میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے کسی وجہ، معاملہ یا اپیل کو چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا گیا بینچ سنے گا اور اسے نمٹائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔
عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے قانون میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184 (3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔
اس حوالے سے کہا گیا کہ اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ دوم کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
آرٹیکل 184 (3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔
بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، اس میں کہا گیا کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔
اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔
قانون میں کہا گیا کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔