بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے فیصلوں کا حتمی اختیار اس کے ایگزیکٹو بورڈ کے پاس ہے جس کے 24 ڈائریکٹرز ہیں جو رکن ممالک یا ممالک کے گروپ منتخب کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کے ایم ڈی بھی بورڈ میں بطور چیئرمین شامل ہوتے ہیں۔
آئی ایم ایف کی ویب سائیٹ کے مطابق یہ بورڈ ہر ہفتے ہی کسی نہ کسی معاملے پر فیصلہ کرنے کے لیے جمع ہوتا ہے۔ فیصلے رائے شماری کے ذریعے کیے جاتے ہیں اوراس مقصد کے لیے ووٹنگ ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دوران ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔
آئی ایم ایف کے رکن ممالک کو ان کے کوٹے کے حساب سے ووٹ دینے کا اختیار حاصل ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ جس کا کوٹا سب سے زیادہ ہے کے پاس 8 لاکھ 31 ہزار 401 ووٹ ہیں۔
پاکستان بھی آئی ایم ایف کا رکن ہے اور پاکستان کے پاس 21,769 ووٹ ہیں۔
رکن ممالک کے یہ ووٹ ان کی نمائندگی کرنے والے ڈائریکٹرز ڈالتے ہیں۔ پاکستان الجیریا، گھانا، ایران، لیبیا، مراکش اور تیونس کے ساتھ ایک گروپ میں شامل ہے۔ اس پورے گروپ کے ووٹ 123,301 ہیں جو مجموعی ووٹوں کا 2.45 فیصد بنتے ہیں۔
یہ ووٹ استعمال کرنے کا اختیار ایگزیکٹو ڈائریکٹر بہادر بیجانی کے پاس ہے۔ پاکستان سمیت گروپ میں شامل ممالک کے وزرائے خزانہ رائے شماری کے حوالے سے ان سے قریبی رابطے میں رہتے ہیں۔
اسی طرح دیگر ممالک کے گروپ ہیں جن کی نمائندگی متعلقہ ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کرتے ہیں۔ امریکہ، جاپان اور چین کے زیادہ ووٹ ہیں اور ان کے اپنے اپنے ڈائریکٹرز ہیں یعنی یہ ممالک کسی گروپ میں شامل نہیں۔
آئی ایم ایم میں 16.5 فیصد ووٹ امریکہ کے پاس ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی منظوری کے بغیر کسی بھی ملک کومالی امداد ملنا تقریباً نا ممکن ہے۔
جاپان کے 309,664 ووٹ ہیں اور چین 306,288 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ ان دونوں کے ووٹوں کا تناسب لگ بھگ چھ چھ فیصد ہے۔
روس کے 130,496 ووٹ ہیں۔ یعنی آئی ایم ایف میں اس کا کردار کافی محدود ہے۔ بھارت کے ووٹوں کی تعداد روس سے بھی زیادہ 132,603 ہے۔