خیبر پختونخوا کی حکمران جماعتوں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مابین گورنر کی تعیناتی پر اختلافات نے شدت اختیار کرلی ہے، دونوں جانب سے ایک دوسرے پر کرپشن کے سنگین الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمہ کے بعد اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کی تجویز اور حمایت پر مولانا فضل الرحمان کے سمدھی، تاجر رہنما اور سابق سینیٹر حاجی غلام علی کو گورنر بنایا گیا تھا، تاہم آٹھ ماہ کے بعد عوامی نیشنل پارٹی کرپشن کے سنگین الزامات لگانے کے بعد اب گورنر کے خلاف سرگرم ہوگئی ہے۔
ایمل ولی خان نے غلام علی کو گورنر بنانے کی حمایت کو اپنی غلطی قرار دیا ہے۔ تو دوسری جانب اے این پی رہنما ثمر ہارون بلور کا کہنا تھا کہ غلام علی نوکریوں کی بندر بانٹ کر رہے تھے، ہم نے انہیں روکنے کی کوشش کی۔ گورنر بتائیں کہ پوسٹنگ ٹرانسفرسےاس کا کیا سروکار؟
ثمر بلور نے کہا کہ اتحاد کی آڑ میں اے این پی کے بندے توڑنے کی کوشش کی جارہی ہے، ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت پتا چلے گا کس کی پارٹی کس طرف ہے،آج غلام علی پارٹیوں کے خاتمے کے دعوے کررہا ہے۔
ثمر بلور نے دعویٰ کیا کہ جے یو آئی کے اندر بھی غلام علی کی مخالفت ہے، ہمارا ختلاف جے یو آئی سے نہیں بلکہ بڑی کرسی پر بیٹھے چھوٹے شخص سے ہے۔
قبل ازیں، ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے بھی پارٹی چیئرمینوں سے گورنر کو ہٹانے کا مطالبہ کر دیا تھا۔
ن لیگ کے صوبائی رہنما اختیار ولی نے کہا تھا کہ گورنر راج ہمارے صوبے پر نافذ ہے، غلام علی کو ہٹا دیں اور ہمارے ہاتھ کھول دیں، اتحادی ہمارے کارکنوں پر بھی راج کر رہے ہیں، یہ اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں اور کارکن منہ دیکھ رہے ہیں۔
خیبرپختونخوا میں اسمبلی کی تحلیل کے بعد سے ہی نگراں حکومت ہے اور اب صوبے میں عام انتخابات کا ماحول بنتا نظر آرہا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں اگلی حکومت کس کی ہوگی۔
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے آج نیوز کی بیورو چیف فرزانہ علی نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) آج بھی صوبے میں پسندیدہ جماعت ہے، ’اس کے ووٹرز اگرچہ خاموش ہیں لیکن آج بھی اپنے لیڈر کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں‘۔
فرزانہ نے کہا کہ اب سارا انحصار پرویز خٹک پر ہے کہ کیا وہ اپنی پارٹی بناتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دوسری جانب سوائے پاکستان پیپلز پارٹی کے باقی تمام سیاسی جماعتوں میں نئے الیکشن میں جانے کے حوالے سے خوف دکھائی دے رہا ہے۔
بیورو چیف فرزانہ نے بتایا کہ اس وقت نگراں حکومت میں شامل جماعتوں جو تلخیاں پیدا ہوگئی ہیں، سے صورت حال کافی شدت اختیار کر گئی ہے۔مولانا فضل الرحمان کو نگراں حکومت میں ان کی جماعت کے بڑے ہونے کی وجہ سے ایک بڑا حصہ دیا گیا تھا ، لیکن اے این پی دعویٰ کردیا کہ ہم بڑی جماعت ہیں۔