کراچی کا علاقہ گرومندر جو تاریخی اعتبار سے کافی اہمیت کا حامل ہے، اس علاقے کانام ’’گرومندر‘‘ کیوں رکھا گیا یہ وہ سوال ہے جس کا جواب سرکاری ریکارڈ سے بھی نہیں ملتا ہے۔
شہر میں جب بھی آپ سفر کرتے ہوئے نمائش چورنگی کے پاس سے گذرتے ہوں گے، تو ”گرومندر“ یہ نام سُن کر ذہن میں یہ ہی سوال ابھرتا ہے کہ شاید کسی مندر کی مناسبت سے یہ نام رکھا گیا ہوگا۔ روزانہ سینکڑوں افراد یہاں سے گذرتے ہیں، لیکن یہاں موجود مندر کے محل وقوع سے واقف نہیں ہے۔
ترقیاتی کام ہونے کے بعد اس علاقے کا نقشہ بدل چکا ہے۔ اطراف میں رہنے والے شہریوں کی اکثریت قرب جوار میں موجود دیگرعبادت گاہوں سے واقف تو ہے لیکن گرومندرکہاں ہے، یہ پتہ نہیں ہے۔
آج نیوز سے شہریوں سے پوچھا تو کسی نے مندر کی موجودگی سے انکار کیا تو کوئی تذبذب کا شکار رہا، اس حوالے سے لوگوں کی مختلف رائے سامنے آئی۔
شری پنچ مکھی ہنومان مندر کے مہاراج رام ناتھ مشرا نے آج نیوز سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سبیل والی مسجد کے پیچھے ایک مندر ہے، جسے گرو کا مندر کہا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں ایک زمانے میں دیوتاؤں کے آستان ہوا کرتے تھے، ہجرت کرکے آنے والوں کے لئے یہ آشرم ہوا کرتا تھا۔
عام شہری بھی اگر سبیل والی مسجد کےعقب میں جاکر بغور اس عمارت کو دیکھیں، تو آج بھی یہاں ”گرمندر“ واضح طور پر لکھا نظر آتا ہے۔
یہ عمارت اپنی وضع قطع سے مندر محسوس نہیں ہوتی بلکہ اب یہ کھنڈرات کا منظر پیش کرتی ہے، یہاں ماضی میں کچھ سرکارتی دفاتر بھی بنائے گئے، جو زیادہ عرصے برقرار نہ رہ سکے۔
گرومندر کانام بدلنے کی دو مرتبہ کوشش کی گئی، پہلی بار1992 میں جب بھارت میں بابری مسجد کا تنازع ہوا اس وقت اس کا نام بابری چوک رکھا گیا۔
بعد ازاں 30 مئی 2004 کو جامعہ بنوریہ کے مہتممم مفتی نظام الدین شامزئی کے قتل کے بعد اسے شامزئی چوک کانام دیدیا گیا لیکن آج نام بدلنے کی یہ کوشش کامیاب نا ہوسکی۔