پاکستان اور ایران سمیت کئی مسلم ممالک کا کہنا ہے کہ قرآن پاک کی بے حرمتی تشدد پر اکسانے کے مترادف ہے۔
منگل کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اجلاس میں گزشتہ ماہ قرآن پاک نذر آتش کیے جانے کے افسوسناک واقعے کے خلاف پیش کی گئی ایک تحریک میں، ممبر ممالک سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنے قوانین پر نظرثانی کریں اور ایسے خلا کو ختم کریں جو ’مذہبی منافرت کی وکالت، ایسی کارروائیوں کی روک تھام اور قانونی کارروائی میں رکاوٹ بن سکتے ہیں‘۔
سویڈن جانے والے ایک عراقی تارک وطن نے گزشتہ ماہ عید الاضحیٰ کی چھٹی کے دوران اسٹاک ہوم کی ایک مسجد کے باہر قرآن پاک کی بے حرمتی کی ، اسے جلایا اور اس پر پتھر برسائے، جس سے پوری مسلم دنیا میں غم و غصہ پھیل گیا اور کئی پاکستانی شہروں میں مظاہرے ہوئے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ویڈیو کے ذریعے جنیوا میں قائم کونسل کو بتایا کہ ’ہمیں یہ واضح طور پر دیکھنا چاہیے کہ یہمذہبی منافرت پر اکسانے، امتیازی سلوک اور تشدد کو ہوا دینے کی کوشش ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی کارروائیاں ’حکومتی منظوری اور معافی کے احساس کے ساتھ‘ ہوئی ہیں۔
بلاول زرداری کے ریمارکس کی بازگشت ایران، سعودی عرب اور انڈونیشیا کے وزراء کی طرف سے بھی سنائی دی، بعد میں اقوام متحدہ میں جمع کرائی گئی تحریک میں قرآن پاک جلانے کو ”اسلام فوبیا“ قرار دیا گیا۔
انڈونیشیا کے وزیر خارجہ ریٹنو مارسودی نے کہا کہ ’آزادی اظہار کا غلط استعمال بند کریں۔ خاموشی کا مطلب ہے اس میں شریک عمل ہونا۔‘
جبکہ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے سویڈن اور یورپی ممالک پر زور دیا کہ وہ ایسے واقعات کے خلاف فوری اور موثر اقدامات کریں۔
قطر کے وزیر مملکت برائے بین الاقوامی تعاون لولواہ راشد الخطر نے خلیجی ریاست کی جانب سے مذمت کا اعادہ کیا اور ان ایجنڈوں کو مورد الزام ٹھہرایا جو ’مسلمانوں اور ان کی برادریوں کے لوگوں میں نفرت پھیلاتے ہیں اور فتنہ کو ہوا دیتے ہیں، اس کے علاوہ دنیا بھر کے اربوں انسانوں کے عقیدے کو مشتعل کرتے ہیں‘۔
کچھ مغربی ممالک نے اس ناپاک عمل کی مذمت تو کی لیکن ”آزادی اظہار“ کا بھی دفاع کیا۔
جرمنی کی اقوام متحدہ کی سفیر کیتھرینا سٹاش نے سویڈن میں ہونے والی کارروائیوں کو ”خوفناک اشتعال انگیزی“ قرار دیا، لیکن انہوں نے مزید کہا کہ ’آزادی اظہار کا مطلب بعض اوقات ایسی رائے لینا بھی ہوتا ہے جو تقریباً ناقابل برداشت لگتی ہیں‘۔
فرانس کے اقوام متحدہ کے مندوب نے کہا کہ انسانی حقوق لوگوں کے تحفظ سے متعلق ہیں نہ کہ مذاہب اور ان کی علامتوں کے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے کونسل کو بتایا کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب یا اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیز کارروائیاں ’جارحانہ، غیر ذمہ دارانہ اور غلط‘ ہیں۔