ترکیہ نے نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) رکنیت کے لئے سوئیڈن کی حمایت کردی ہے۔
ترک صدر رجب طیب اردگان نے سوئیڈن کو نیٹو کا رکن بنانے کی حمایت کردی ہے اور اپنا ویٹو واپس لے لیا ہے، ترکیہ کی مخالفت کے سبب ہی سوئیڈن اب تک نیٹو میں شامل نہیں ہو رہا تھا۔
امریکی صدارتی محل وائٹ ہاؤس کےمطابق اردگان کی جانب سے حمایت کے اعلان سے ایک دن قبل امریکی صدر جو بائیدن نے ترک صدر سے ٹیلیفونک رابطہ کیا تھا۔
سوئیڈن کی جانب سے ترکیہ کے کرد علیحدگی پسندوں کو پناہ دیئے جانے پر انقرہ اور اسٹاک ہولم کے درمیان ایک برس سے شدید کشیدگی چل رہی تھی جس میں اس وقت اضافہ ہوا جب سوئیڈشن انتہا پسندوں نے رواں برس کے آغاز میں ترک سفارتخانے کے سامنے قرآن پاک کی بے حرمتی کی تھی۔
سوئیڈن میں حالیہ گستاخانے واقعے سے اس کشیدگی میں مزید اضافے کا خدشہ تھا لیکن سوئیڈش حکومت نے نہ صرف حالیہ واقعے کی مذمت کی بلکہ بے حرمتی کرنے والے عراقی پناہ گزین کے خلاف کارروائی بھی شروع کردی۔
ترک صدر اردگان اور سوئیڈن کے وزیراعظم کے درمیان لتھوانیا کے شہر ویلنیوس میں ملاقات ہوئی جس کی میزبانی نیٹو کے سربراہ جینز سٹولٹن برگ نے کی۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات کے بعد نیٹو سربراہ نے پیر کو اعلان کیا کہ اردگان نے سوئیڈن کی نیٹو رکنیت کی حمایت کردی ہے اور اپنی پارلیمنٹ سے کہا ہے کہ وہ فیصلے کی جلد سے جلد توثیق کر دے۔
نیٹو چیف نے سوئیڈش وزیراعظم اور ترک صدر کے ساتھ اپنی ایک تصویر بھی ٹوئٹر پر شیئر کی ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک بیان میں کہا کہ وہ ترک صدر اردگان کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں۔
ترکیہ کی جانب سے حمایت کے اعلان کے فوری بعد امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے بھی ایک بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت نے ترکیہ کو ایف 16 طیاروں کی فراہمی کی حمایت کردی ہے۔
سوئیڈن نے بھی ترکیہ کے تحفظات دور کرنے کے لئے کئی اقدامات کیے جن میں ترک مخالف عسکریت پسندوں کی گرفتاری شامل ہے۔
اس کے علاوہ سوئیڈن کی وزارت انصاف کی جانب سے مقدس کتابوں کی بے حرمتی کے خلاف قانون بنانے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔