دنیا بھرمیں آج عالمی یوم آبادی منایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے آبادی کے اعدادوشمار کے مطابق خیبر پختونخواہ کی آبادی کا تخمینہ 40 ملین ہے جبکہ 2050 تک یہ 58 ملین تک پہنچنے کا امکان ہے ۔ یہ تعداد ایک ایسے صوبے کے لئے انتہائی الارمنگ ہے جو ٹوٹل بجٹ کا صرف چھ فیصد کمانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
ایسی صورتحال میں معاشرتی روی آبادی کے کنٹرول میں رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں ، عورت کی صحت کو مدنظررکھنے کے بجائے مرد حضرات کی ایک بڑی تعداد فرسودہ خیالات کی حامی ہے جو صنفی عدم مساوات کو بھی جنم دیتے ہیں۔
مردان سے تعلق رکھنے والی خدیجہ کے 6 بچے ہیں انہوں نے بتایا کہ 16 سال کی عمر میں شادی ہوئی تھی ۔ 4 بچے ہونے کے بعد سوچا کہ اب مزید بچوں کی پیدائش کے بجائے اپنے 4 بچوں کی پڑھائی لکھائی اور اچھی تربیت پرتوجہ دوں لیکن میرے6 خاوند نے اس معاملے پر ساتھ نہیں دیا اور نوبت لڑائی جھگڑے سے ہوتے ہوئے مار پیٹ تک جاپہنچی۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے آبادی کے مطابق 2023 کے اعدادوشمار کے مطابق خیبر پختونخواہ کی آبادی کا تخمینہ 40 ملین ہے جو 2050 تک 58 ملین تک پہنچنے کا امکان ہے۔
دوسری جانب نیشنل نیوٹریشن سروے 2018 اور پاکستان سماجی اور معیارزندگی کی پیمائش سے متعلق سروے 2019-20 کے اعدادشمار ہمیں بتاتے ہیں کہ سالانہ تقریباً 1900 مائیں بچے کی پیدائش کے دوران اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔
سروے کے مطابق پیدا ہونے والے ہرایک ہزار بچوں میں سے 53 ایک سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے انتقال کرجاتے ہیں۔
5 سال سے کم عمر کے بچوں میں سے 23 فیصد غذائیت کی کمی شکار ہوتے ہیں۔
اعدادوشمار ہمیں معاملات کی سنگینی کا احساس دلاتے نظر آتے ہیں لیکن معاشرتی سطح پر اس کا احساس نہ ہونے کے برابرہے۔
اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے پشاور میں صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والی کونسلر مہوش جمیل نے کہا کہ بہت کم لوگ عورت کا خیال رکھت ہیں ورنہ وہ کولہو کا بیل بنی ہوئی ہے، ایک عورت 13، 13 بچے پیدا کر لے تو اس کی صحت نہیں بچتی، وہ بہت سی بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ خاندان عورت سے ہی تشکیل پاتا ہے جب وہی عورت صحت مند نہیں ہوگی تو کیسے اپنے بچوں کی اچھی پرورش کرے گی۔
معاشرتی رویے آبا دی میں اضافے کے ساتھ ساتھ صنفی عدم مساوات ، عورت کی صحت اور تولیدی زندگی کے بارے میں فیصلے کرنے کی صلاحیت کو بھی محدود کر دیتے ہیں جس کا تدارک وقت کی اہم ضرورت ہے۔