آج (11 جولائی، منگل) دنیا بھر میں آبادی کا عالمی دن منایا جا رہا ہےجس کی تھیم ’صنفی مساوات کی طاقت کو اجاگر کرنا، دنیا کے لامحدود امکانات کو کھولنے کے لیے خواتین اور لڑکیوں کی آواز کو بلند کرنا‘ ہے۔
ایک سروے کے مطابق اس وقت پاکستان کی آبادی کا تخمینہ 240.5 ملین (24 کروڑ سے زائد) ہے اور 2050 تک اس کے 403 ملین (40 کروڑ 30 لاکھ) تک پہنچنے کا امکان ہے۔
پاکستان میں ہر سال تقریباً 56 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں، پاکستان میں کی کل زرخیزی کی شرح جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔
آبادی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ مانع حمل ادویات کی کمی اور خواتین میں مانع حمل ادویات کا استعمال بند ہونا ہے۔ جس کی وجہ سے بچے پیدا ہوتے ہیں اور اس دوران کئی مائیں مرجاتی ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی اموات کی یہ تعداد ہر سال تقریباً 12,000 ہے۔
اگر مانع حمل ادویات کا استعمال 34 فیصد سے بڑھ کر 52 فیصد ہو جائے تو تقریباً 6500 جانیں سالانہ بچائی جا سکتی ہیں۔
مطالعہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ہر سال ہزار میں سے 62 شیر خوار بچے ایک سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔
اگر مانع حمل ادویات کا استعمال 34 فیصد سے 52 فیصد بڑھ جائے تو سالانہ 140000 سے زیادہ شیر خوار بچوں کو بچایا جاسکتا ہے۔
خندانی منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے 17.3 فیصد شیر خوار بچے غیر ارادی طور پر پیدا ہوتے ہیں اور پاکستان میں اوسطاً ایک جوڑا ایک غیر ارادی بچہ پیدا کرتا ہے۔ اس سے نوزائیدہ بچوں میں غذائیت کی کمی بھی ہوتی ہے۔
اگر پاکستان کی آبادی میں سالانہ دو فیصد کے حساب سے اضافہ ہوتا رہا تو 2040 تک 101 ملین ملازمتیں درکار ہوں گی، جبکہ اس وقت پاکستان میں 12.2 فیصد نوجوان بے روزگار ہیں۔
اسی طرح 2040 تک مزید ایک کروڑ 90 لاکھ گھروں کی ضرورت ہوگیِ 85000 مزید پرائمری اسکولوں کی ضرورت ہوگی۔
اس وقت، پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کا ہر تین میں سے ایک بچہ اسکول سے باہر ہے، جس میں 27 فیصد لڑکے اور 37 فیصد لڑکیاں شامل ہیں۔
سالانہ دو فیصد اضافے کی موجودہ شرح سے آبادی میں اضافے نے بھی پاکستان کے وسائل پر بوجھ ڈالا ہے۔
آبادی میں تیزی سے اضافے نے ملک کو غربت، تعلیم کی کمی، بے روزگاری، عدم مساوات، بچوں اور نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات، گھریلو تشدد میں اضافہ اور عام طور پر ایک غیر صحت مند اور غیر ہنر مند نسل کی طرف لے آیا ہے۔
سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی 36.9 فیصد آبادی کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے اور پاکستان میں پانی کی فی کس دستیابی 1951 میں 5650 کیوبک میٹر سے کم ہو کر 908 کیوبک میٹر سالانہ کی خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے، جس سے پاکستان بھی پانی کی قلت کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔
2023 کے عالمی یوم آبادی کے حوالے سے سروے بتاتے ہیں کہ جب خواتین اور لڑکیوں کو اپنی زندگی اور جسم کے بارے میں فیصلے کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے، تو وہ اور ان کے خاندان ترقی کرتے ہیں۔ خواتین اور لڑکیوں کو تمام کوششوں کا مرکز ہونا چاہیے۔
ملک کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ان کی تولیدی صحت اور حقوق، تعلیم، ہنر کی ترقی اور روزگار کو ترجیح دینا ہوگی۔
خاندانی منصوبہ بندی اور معیاری زچگی کی صحت کی دیکھ بھال کی خدمات اور مناسب معلومات ہر کسی تک پہنچنی چاہئیں۔