امریکا نے ایک امریکی تھنک ٹینک کے سربراہ پر چین کا ایجنٹ ہونے کے علاوہ ہتھیاروں اور ایرانی تیل کی فروخت میں معاونت کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
یویارک میں وفاقی استغاثہ نے امریکی اور اسرائیل کے شہری گیل لوفٹ پر ’ متعدد سنگین اورمجرمانہ اسکیموں’ میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔ 57 سالہ امریکی اور اسرائیلی شہری گیل لوفٹ کو فروری میں قبرص میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن حوالگی میں زیر التواء ضمانت ملنے کے بعد وہ فرارہوگیا تھا۔
مین ہیٹن میں وفاقی استغاثہ نے کہا کہ ایک امریکی تھنک ٹینک کے سربراہ پر چین کے غیر رجسٹرڈ ایجنٹ کے طور پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں اور ایرانی تیل کی فروخت میں ثالثی کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ انہوں نے 2016 میں چین کی پالیسیوں کے مفاد میں امریکی حکومت کے ایک سابق اعلیٰ عہدے دار کو بھرتی کیا اور قانون کے مطابق غیر ملکی ایجنٹ کے طور پر اندراج کیے بغیر ادائیگی کی۔
استغاثہ نے سابق عہدیدار کی شناخت ظاہر نہیں کی لیکن کہا کہ وہ اس وقت نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر کے طور پر کام کر رہے تھے۔
لوفٹ پر الزام ہے کہ انہوں نے مشیر پرچین کے لیے سازگار پالیسیوں کی حمایت کے لیے دباؤ ڈالا، جس میں مشیر کے نام پر تبصروں کا مسودہ تیار کرنا بھی شامل ہے جو ایک چینی اخبار میں شائع ہوئے تھے۔
لوفٹ کے نام سے ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ، جس کے 15،000 سے زیادہ فالوورز ہیں، سے 18 فروری کو کی جانے والی ایک ٹویٹ میں کہا گیا کہ انہیں قبرص میں ”امریکا کی طرف سے سیاسی طور پر مقاصد کے تحت حوالگی کی درخواست پر“ گرفتار کیا گیا ہے۔
لوفٹ نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ’میں کبھی اسلحے کا ڈیلر نہیں رہا‘۔ انہوں نے فوری طور پر رائٹرز کی جانب سے بھیجے گئے براہ راست پیغام کا جواب نہیں دیا۔
گیل لوفٹ انسٹی ٹیوٹ فار دی اینالسس آف گلوبل سکیورٹی کے شریک ڈائریکٹر ہیں، جو خود کو واشنگٹن ڈی سی میں قائم تھنک ٹینک کے طور پر بیان کرتا ہے جس کی توجہ توانائی، سلامتی اور معاشی رجحانات پر مرکوز ہے۔
تھنک ٹینک نے فوری طور پر تبصرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
استغاثہ کا الزام ہے کہ لفٹ نے چینی کمپنیوں کو لیبیا، متحدہ عرب امارات اور کینیا سمیت دیگر ممالک کو اسلحہ فروخت کرنے کا معاہدہ کیا، حالانکہ ان کے پاس امریکی قانون کے مطابق ایسا کرنے کا لائسنس نہیں تھا۔
ان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے مشرق وسطیٰ کے اس ملک پر امریکی پابندیوں کے باوجود تیل کے معاہدوں پر بات چیت کے لیے ایرانی حکام اور ایک چینی توانائی کمپنی کے درمیان ملاقاتیں کیں۔