پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو بیرونی ادائیگیوں کے لیے ایک فنانسنگ منصوبہ پیش کیا ہے، جس میں عالمی قرض دہندہ کو مطلع کیا گیا ہے کہ حکومت بیرونی ادائیگیوں کے لیے 6 ارب ڈالر کے بجائے 8 ارب ڈالر کا بندوبست کرے گی۔
وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستان سے بیرونی ادائیگیوں کے لیے 6 ارب ڈالر کی یقین دہانی مانگی تھی۔ تاہم، پاکستان نے آئی ایم ایف کو بیرونی ادائیگیوں کے لیے 8 بلین ڈالر کی یقین دہانی کرائی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ چین پاکستان کو 3.5 بلین ڈالر فراہم کرے گا جس میں سے اسلام آباد دو بلین ڈالر ڈپازٹ میں رکھے گا، جب کہ بیجنگ کے کمرشل بینک ملک کو 1.5 بلین ڈالر فراہم کریں گے۔
اس کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان کو بالترتیب دو اور ایک ارب ڈالر فراہم کریں گے۔
پاکستان کو ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کے 250 ملین ڈالر کے علاوہ ورلڈ بینک سے 500 ملین ڈالر بھی ملیں گے۔
وزارت خزانہ کے حکام نے بتایا کہ جنیوا کانفرنس کے دوران 350 ملین ڈالر کا وعدہ کیا گیا تھا، وہ رقم بھی پاکستان آئے گی۔
حکومت نے رواں مالی سال کے پہلے تین مہینوں میں ملکی کمرشل اور شریعہ سے مطابقت رکھنے والے بینکوں سے 11.10 ٹریلین روپے کی ریکارڈ بلند ترین قرضوں کی فنانسنگ حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
ان فنڈز کا استعمال بنیادی طور پر پرانے قرض کی ادائیگی اور بڑے مالیاتی خسارے کو جزوی طور پر پورا کرنے کے لیے کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق یہ مسلسل تیسرا مہینہ ہے جب حکومت نے ریکارڈ بلند ملکی قرضہ جات کے اہداف مقرر کیے ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکموت بجٹ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے قرض پر بہت زیادہ منحصر ہے۔
تاہم، قرعض کے اس حصول نے تشویش کو بھی جنم دیا ہے کیونکہ قرضہ ملکی اور بیرونی طور پر غیر پائیدار سطح تک پہنچ چکا ہے، اور اب اسے تنظیم نو کی ضرورت ہے۔
صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت کو یا تو غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرنے کی ضرورت ہے، ساتھ ہی پارلیمانی بجٹ میں کمی، ضرورت سے زیادہ اخراجات کو روکنے، یا محصولات کی وصولی میں اضافہ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
گزشتہ مالی سال کے لیے عارضی محصولات کی وصولی 7.14 ٹریلین روپے رہی جو کہ 7.64 ٹریلین روپے کے مقررہ ہدف سے کم ہے۔
قرض کی ادائیگی کے بعد، حکومت کے لیے سب سے بڑا خرچ مجموعی قرض پر سود کی ادائیگی ہے۔ اس سے حکومت کے لیے ترقیاتی منصوبوں کو انجام دینے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی بہت کم گنجائش رہ جاتی ہے۔