اسلام آباد ہائیکورٹ سے سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے معاملے پر سپریم کورٹ نے تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ جس میں کہا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی احاطہ عدالت سے گرفتاری بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔
سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ 22 صفحات پر مشتمل ہے، فیصلہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے جاری کیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے علیحدہ وجوہات جاری کرنے کا نوٹ بھی لکھا۔
فیصلے میں لکھا گیا کہ پولیس حکام، تحقیقاتی ایجنسی احاطہ عدالت سے گرفتاری سے پرہیز کریں، احاطہ عدالت سے گرفتاری عدالت کی عزت و تکریم اور وقار کی خلاف ورزی ہے، احاطہ عدالت سے گرفتاری شہریوں کی بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے، عدالتوں کو لوگ اپنے لیے محفوظ سمجھ کر انصاف حاصل کرنے آتے ہیں ، چیٸرمین پی ٹی آٸی اسلام آباد ہاٸیکورٹ میں سرینڈر کر چکے تھے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ چیٸرمین پی ٹی آٸی سے پوچھا گیا کہ کیا وہ خود کو نو مٸی کے واقعات سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہیں، سابق وزیراعظم نے جواب دیا وہ گرفتار تھے۔ معلوم نہیں کہ ملک میں کیاہوا، انہوں نے یقین دہانی کرواٸی کہ بھی کارکنوں کو تشدد پرنہیں اکسایا، چیٸرمین پی ٹی آٸی نے یقین دہانی کرواٸی کہ وہ ملک میں امن چاہتے ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے القادر ٹرسٹ کیس میں ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے ہائیکورٹ سے رجوع کیا، چئیرمین پی ٹی آئی القادر ٹرسٹ سمیت ایک اور کیس کے لیے ہائیکورٹ پہنچے تھے، ہائیکورٹ میں بائیو میٹرک کے وقت رینجرز نے ڈائری برانچ میں زبردستی گھس کر چیئرمین پی ٹی آئی کو گرفتار کیا، رینجرز نے 9 مئی کو ہائیکورٹ کے احاطے میں شیشے توڑے، وکلا اور عملے کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے مزید میں لکھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے 9 مئی کو چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کے واقعے کا نوٹس لیا، ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے گرفتاری کے طریقے کو غلط لیکن گرفتاری کو قانونی قرار دیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے گرفتاری غیر قانونی قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، عدالتی حکم پر ساڑھے چار بجے چیئرمین پی ٹی آئی کو عدالت میں پیش کیا گیا، عدالت نے 9 مئی کے واقعات پر بیان کے لیے چیئرمین پی ٹی آئی کو روسٹرم پر آنے کی اجازت دی۔
عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے گرفتاری کے بعد کے واقعات سے لا علمی کا اظہار کیا، عدالت نے پوچھا کہ کیا وہ 9 مئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی نے یقین دہانی کرائی اور کہا کبھی اپنے چاہنے والوں کو تشدد پر نہیں اکسایا۔
سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں لکھا گیا کہ درخواست گزار نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتاری پر مایوسی کا اظہار کیا، نیب پراسیکیوٹر اور اٹارنی جنرل کو سننے کے فوری بعد مختصر حکم جاری کیا گیا، مختصر حکم میں چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کے وارنٹ کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو پولیس گیسٹ ہاؤس میں نامزد لوگوں سے ملاقات کی اجازت دی گئی، احاطہ عدالت سے گرفتار کر کے انصاف کے حصول کے بنیادی حق کو پامال کیا گیا، طے شدہ اصول ہے کہ عدالتی وقار اور تقدس کی پاسداری سب پر لازم ہے، لوگ اس یقین دہانی پر عدالتوں آتے ہیں کہ آزادانہ ماحول اور شفاف انصاف ملے گا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ہائیکورٹ میں پیش ہو کر بائیو میٹرک تک چئیرمین پی ٹی آئی نے عدالت کے سامنے سرنڈر کر دیا تھا، جس طریقے سے گرفتاری ہوئی ہائیکورٹ کی اتھارٹی اور تقدس کو پامال کیا گیا، اس سے قبل احاطہ عدالت سے گرفتاری پر سپریم کورٹ توہین عدالت کی کارروائی کر چکی ہے، عدالت کی صوابدید ہے کہ توہین عدالت کی کارروائی کرے یا اس سے احتراز برتے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹ نے اپنے تقدس کو شہری کے انصاف کے حصول کے بنیادی حق پر ترجیح دی، ہائیکورٹ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے حفاظتی ضمانت دے سکتی ہے، اگر چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری قانونی قرار دی جاتی تو القادر ٹرسٹ میں دائر ضمانت کی درخواست غیر مؤثر ہو جاتی۔
عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر سابق وزیراعظم کی گرفتاری قانونی قرار دی جاتی تو آئندہ احاطہ عدالت سے گرفتاری معمول بن جاتی، عدالت گرفتاری کی توثیق کرتی تو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے احاطہ عدالت کو ملزمان کے شکار کا گڑھ بنا لیتے، پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ملزمان کے ساتھ احاطہ عدالت میں بدتمیزی کی اجازت مل جاتی، سپریم کورٹ نے آرٹیکل 4، 9 اور 10 اے کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے گرفتاری غیر قانونی قرار دی۔
سپریم کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کا اسلام آباد ہائیکورٹ کا وارنٹ غیر قانونی قرار دے کر انہیں رہا کردیا تھا۔