آئی ایم ایف ایگزیکٹیو بورڈ 12 جولائی کو ہونے والے اپنے اجلاس میں پاکستان کے ساتھ 3 ارب ڈالر کے قرض کے معاہدے پر غور کرے گا اور اگر اس نے مناسب سمجھا تو معاہدے کی منظوری دے گا۔ اس منظوری کے بعد ہی پاکستان کو رقم ملنا شروع ہوگی۔ تاہم اس سے قبل پاکستان میں آئی ایم ایف کی ٹیم نے سیاسی جماعتوں کے سربراہان بشمول عمران خان سے ملاقاتیں شروع کی ہیں۔
آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) کا اعلان گزشتہ ہفتے عملے کی سطح کے معاہدے (اسٹاف لیول) کے بعد کیا تھا۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں بشمول حکمران اتحاد اور حزب اختلاف کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ وہ اس بات کی یقین دہانی چاہتا ہے کہ ملک کے قومی انتخابات سے قبل نئے اسٹینڈ بائی انتظامات (ایس بی اے) کے تحت مقاصد اور ایجنڈے پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان نویں جائزے کی مدت 30 جون کو ختم ہوگئی تھی۔ جس کے بعد نئے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت معاہدہ عمل میں آیا۔
پاکستان میں حکمراں اتحاد اور حزب اختلاف کے درمیان اس وقت اہم معاملات پر اختلافات ہیں اور وہ پاکستان کے آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آنے والے مہینوں میں عام انتخابات متوقع ہیں اور آئی ایم ایف چاہے گا کہ جو بھی اقتدار میں آئے گا وہ اپنے نئے ایس بی اے کے لیے پرعزم رہے۔ یعنی یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عالمی مالیاتی فنڈز مستقبل کی یقین دہانیاں چاہتا ہے تاکہ کسی ممکنہ معاہدے کی صورت میں ادارے کے مقاصد اور ایجنڈے کی تکمیل سو فیصد ممکن ہوسکے۔
اس سوال پر کہ اگر کوئی سیاسی جماعت قرض کے معاہدے کی حمایت نہیں کرتی تو کیا اس کے اثرات ایگزیکٹو بورڈ کے فیصلے پر ہو سکتے ہیں، ماہرین کا کہنا تھا کہ ایسا بہت حد تک ممکن ہے۔
آئی ایم ایف کے ایس بی اے پروگرام کو اس لیے بھی اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ پاکستان کو حالیہ مہینوں میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے جس میں ڈیفالٹ کے خطرے اور بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں کی جانب سے درجہ بندی میں کمی جیسے مسائل شامل ہیں۔