لاہور کی انسداد دہشتگردی عدالت نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو 14 جولائی کو اپنے خلاف درج مقدمات میں شامل تفتیش ہونے کا حکم دے دیا۔ دوسری طرف عمران خان نے پنجاب میں درج تمام مقدمات میں کارروائی روکنے کی درخواست لاہور ہائیکورٹ میں دائر کردی۔
عمران خان آج لاہور کی انسدادِ دہشتگردی عدالت میں پیش ہوئے،عدالت نے عمران خان کو روسٹرم پر بلا کر ان سے استفسار کیا کہ آپ ابھی تک تفتیش میں شامل کیوں نہیں ہوئے۔
عدالتی استفسار پر چیئرمین تحریک انصاف نے وضاحت کی کہ وہ روزانہ کسی نہ کسی عدالت میں پیش ہو رہے ہیں جس کے باعث وہ تفتیش میں شامل نہیں ہو سکے۔
انسداد دہشتگردی عدالت نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی جناح ہاؤس حملہ سمیت دیگر مقدمات میں عبوری ضمانت میں 21 جولائی تک توسیع کر دی تاہم عدالت نے انھیں 14 جولائی کو اپنے خلاف مقدمات کی تفتیش میں شامل ہونے کا حکم دیا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے پنجاب میں درج تمام مقدمات میں کارروائی روکنے کی درخواست لاہور ہائیکورٹ میں دائر کردی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایک ہی الزام میں کئی مقدمات درج کئے گئے ہیں، ایک مقدمہ درج کرکے ایک عدالت میں کارروائی کی جائے۔
درخواست میں پنجاب حکومت اور آئی جی پنجاب کو فریق بنایا گیا، لطیف کھوسہ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے درخواست دائر کی، جس میں مؤقف اپنایا گیا کہ پولیس نے جھوٹی اور بے بنیاد ایف آئی آرز میں نامزد کیا ہوا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی مقدمات یکجا کرنے کی درخواست پر سماعت ہوئی، عدالت نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
سرکاری وکیل نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک کیس چلے اور باقی روک دیئے جائیں، 5 رکنی بینچ اس طرح کی درخواست خارج کرچکا ہے۔
عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے مؤقف اختیار کیا کہ میں کرکٹر ہوں اور سنچری پر یقین رکھتا ہوں، چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف150سے زائد مقدمات ہیں، آرٹیکل 10 اے شفاف ٹرائل کا حق دیتا ہے، تمام مقدمات میں ایک ہی طرح کی دفعات لگائی گئی ہیں، بلوچستان ہائیکورٹ اس طرزکےکیس میں فیصلہ دےچکی ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ بلوچستان ہائیکورٹ والا الگ کیس تھا، ایک پروگرام مگر مقدمات متعدد جگہ پر درج تھے، یہاں مؤقف ایک ہے مگر واقعات الگ الگ ہیں، کیا آپ کی حد تک حکم امتناعی جاری کیا جا سکتا ہے، سب بری ہوجائیں تو پھرآپ کوبری ہونے کیلئے درخواست دیناہوگی۔
وکیل لطیف کھوسہ نے مؤقف پیش کیا کہ ملک میں پہلی بار ایسی اندھیر نگری پیدا ہوئی ہے، اب نئے قانون بنائیں گے، اور نئے فیصلے ہوں گے۔
سرکاری وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ کسی سیاسی بات کا جواب نہیں دوں گا، اکیلے ایک شخص پر 100سے زیادہ مقدمات درج نہیں، 9 مئی سے پہلے اور بعد میں25 مقدمات درج ہوئے۔
سرکاری وکیل نے مؤقف پیش کیا کہ کسی نے5 قتل ملک بھر میں کئے ہوں تو کیسے ایک ٹرائل ہوسکتا ہے، ہر مقدمات کے واقعات اور شواہد مختلف ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ممکن نہیں کہ ایک شخص 25 مقدمات میں ملک بھر میں پھرتا رہے۔
توشہ خانہ کیس کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے کی، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹرگوہر اور الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل بیرسٹر گوہرنے عدالت سے استدعا کی کہ وکیل خواجہ حارث مصروف ہیں سماعت ملتوی کی جائے جس پر امجد پرویز ایڈوکیٹ نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں چار وکیل ہیں، یہ صرف ٹائم ضائع کررہے ہیں۔
امجد پرویز ایڈوکیٹ نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاء تاخیری حربے استعمال کررہے، وکلاء کی نیت ہی دلائل دینے کی نہیں، خواجہ حارث کی کوئی عدالتی مصروفیات نہیں۔
وکیل بیرسٹر گوہر نے عدالت کو بتایا کہ اس کیس میں سینئر کونسل حواجہ حارث ہیں۔بعد ازاں عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظورکرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
سیشن جج نے کل خواجہ حارث کو عدالت پیش ہونے کی دوبارہ ہدایات جاری کی ہے۔
واضح رہے کہ توشہ خانہ فوجداری کیس میں گزشتہ روز بھی عمران خان عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے جس پر کورٹ نے انہیں آج ذاتی حیثیت میں طلب کر رکھا تھا۔
دوسری جانب چئیرمین پی ٹی آئی نے توشہ خانہ ٹرائل کورٹ منتقل کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا، عدالت عظمیٰ نے درخواست سماعت کے لئے مقرر کردی۔
پٹیشن میں کیس واپس بھیجنے اور سات روز کے اندر فیصلہ کرنے کا حکم کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ عمران خان کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سنگل ممبر بنچ نے توشہ خانہ کیس ٹرائل کورٹ کو بھیجوایا، ٹرائل کورٹ کے جج نے دوران حراست فرد جرم عائد کی، اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ مقدمہ واپس اسی جج کو بھیجا جو بدنیتی ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف نے توشہ خانہ کی کارروائی روکنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں اپیل کا فیصلہ ہونے تک ٹرائل کورٹ کی کارروائی روک دی جائے۔