امریکا جاکر شہریت حاصل کرنے کے خواہشمند جان لیں کہ اس حوالے سے ٹیسٹ میں تبدیلی کی جارہی ہے جس پر آئندہ سال سے عمل کیا جا سکتاہے۔
امریکی سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز کا کہنا ہے کہ مجوزہ تبدیلیوں کے تحت نئےٹیسٹ میں انگلش بول چال اورشہریت کے سیکشن میں نئے ’ملٹی پل چوائس فارمیٹ‘ کا اضافہ کیا جائے گا۔
اس اعلان کے بعد بہت سے تارکین وطن اس تشویش کا اظہار کررہے ہیں کہ لائی جانے والی تبدیلیوں سے وہ امیدوارمتاثر ہوں گے جو انگریزی زبان سے بہت زیادہ واقفیت نہیں رکھتے۔
دنیا بھر سے لاکھوں تارکینِ وطن ہرسال امریکا میں کئی سال تک مستقل رہائش کے بعد متعدد مرحلوں سے گزرتے ہوئے سےشہریت حاصل کرتے ہیں۔ اس عمل کا آخری مرحلہ امریکی شہریت کا ٹیسٹ پاس کرنا ہوتا ہے۔
امریکی وفاقی قانون کے تحت شہریت کے خواہشمند بیشتر امیدواروں کیلئے لازم ہے کہ وہ انگریزی زبان سے واقفیت رکھتے ہوں اورعام استعمال کے الفاظ بول ، پڑھ اورلکھ سکتے ہوں۔ اس کے علاوہ امریکی تاریخ اورحکومت کے بارے میں جو علم میں ہو اسے بیان کرسکتے ہوں۔
سابق ری پبلکن صدرڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے 2020 میں امریکی شہریت کا ٹیسٹ زیادہ طویل اور پیچیدہ بنا کت اسے پاس کرنا مشکل بنا دیا تھا ۔
ڈیمو کریٹک صدرجو بائیڈن نے منصب سنبھالنے کے بعد سٹیزن شپ کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کیلئے ایگزیکیٹو آرڈر پردستخط کیے جس سے شہریت کا ٹیسٹ پھر سے پہلے والے ورژن میں تبدیل کردیا گیا۔
اس میں امیدوار کی ا نگریزی بولنے کی مہارت کو انٹرویو کے دوران چند ایسے ذاتی نوعیت کے سوالات پوچھ کر جانچا جاتا ہے جن کےجواب وہ کاغذی کارروائی کے دوران پہلے ہی دے چکا ہوتا ہے۔
امریکی شہریت کا ٹیسٹ آخری بار 2008 میں اپ ڈیٹ کیا گیا تھا جس کے بعد اب اس میں نئی تبدیلیاں لائی جارہی ہیں ۔
نئے مجوزہ ٹیسٹ میں شہریت کے امیدوار کو روز مرہ سرگرمیوں ، موسم یا خوراک جیسی تصاویر دکھانے کے بعد کہا جائے گا کہ انگریزی زبان میں ان کی وضاحت کرے ۔ایک اور مجوزہ تبدیلی امریکی تاریخ اور حکومت سے متعلق سوکس سیکشن میں کی جائے گی۔
تارکینِ وطن اور ان کےحامیوں کا کہنا ہے کہ امریکی شہریت کے تعین میں یہ ٹیسٹ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس میں کی جانےوالی تبدیلیاں ایسے افراد کیلئے نقصان دہ ہوسکتی ہیں جنہیں انگریزی زبان میں مہارت حاصل نہیں ہے۔
جونز لائبریری میسا چوسٹس کے بطور سیکنڈ لینگو یج سینٹر کے سٹیزن شپ کو آرڈی نیٹر، لین وین تراب کا کہنا ہے کہ سوکس سیکشن کے مجوزہ فارمیٹ سے ٹیسٹ خصوصاً معمر تارکین وطن اور ان پناہ گزینوں کیلئے مشکل ہو جائے گا جنہیں اپنے ملک میں انگریزی پڑھنے،لکھنے یابولنے کا موقع ہی نہ ملاہو ۔
انہوں نے کہا شہریت کے امیدواروفاقی حکومت کے کسی افسر کے سامنے بیٹھ کرویسے ہی گھبراہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ ان کے لیے افسران سے بات کرنا او ر وہ بھی ایک ایسی زبان میں جو مادری زبان نہ ہو انتہائی مشکل ہو سکتا ہے۔ گھبراہٹ میں جواب کیلئے ناسب الفاظ نہ ملنے پرشہریت کے حصول میں انکی مشکلات بڑھ سکتی ہیں ۔
تاہم انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف منی سوٹا میں امیگریشن سروسز کی ڈائریکٹر کورلین اسمتھ اس ٹیسٹ کو اہم نہیں سمجھتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز ’یو ایس سی آئی ایس‘ امیدواروں کا پس منظر پہلے ہی چیک کرچکا ہوتا ہے کہ آیا وہ کوئیمجرمانہ ریکارڈ تو نہیں رکھتے، ٹیکس ادا کرتے ہیں اور اپنے بچوں کے مالی اخراجات اٹھاتےہیں ۔ تو ایسی صورت میں کیا یہ جاننا اہم ہے کہ وہ امریکی تاریخ اور حکومت سے متعلق صرف معلومات رکھتے ہو ں بلکہ انہیں یاد بھی رکھ سکتے ہوں۔
فی الحال یہ واضح نہیں کہ یہ تبدیلیاں نئے ٹیسٹ میں کس انداز میں شامل ہو ں گی ۔
امریکی سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز کے مطابق 2023 میں مجوزہ تبدیلیوں کے ساتھ نئے ٹیسٹ کاملک گیر سطح پر تجربہ کر کےعوامی فیڈ بیک لیا جائے گا۔ زبان دانی، شہریت اور ٹیسٹ تشکیل دینے والے ماہرین کا ایکسٹرنل گروپ اس تجربے کے نتائج کا جائزہ لے گا جن کے لتجویز کئے گئے طریقوں کی مدد سے ان تبدیلیوں کے بہترین نفاذ میں مدد مل سکے گی۔