جب لا پاما کے کنیری جزیرے کے ساحل پر ایک سپرم وہیل مردہ حالت میں پائی گئی تو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کی انتڑیوں میں ایک قیمتی خزانہ چھپا ہوا ہے۔
بپھرتے سمندر اور تیز لہروں نے وہیل کا پوسٹ مارٹم کرنا مشکل بنا دیا تھا، لیکن لاس پاماس یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف اینیمل ہیلتھ اینڈ فوڈ سیکیورٹی کے سربراہ انتونیو فرنینڈز روڈریگز یہ جاننے کے لیے پرعزم تھے کہ وہیل کی موت کیوں ہوئی۔
ہاضمے میں دشواری کے شبہ میں جب انہوں نے مچھلی کی بڑی آنت کا معائنہ کیا تو انہیں محسوس ہوا کہ آنت کے اس حصے میں کوئی سخت چیز پھنسی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے جو نکالا وہ 50 سے 60 سینٹی میٹر قطر کا پتھر تھا جس کا وزن 9.5 کلوگرام تھا۔
جب میں ساحل سمندر پر واپس آیا تو سب دیکھ رہے تھے، لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ میرے ہاتھ میں ایک امبرگریس تھا۔
امبرگریس ایک نایاب مادہ ہے، جسے تیرتا ہوا سونا بھی کہا جاتا ہے، یہ صدیوں سے پرفیوم بنانے والوں کا مقدس مادہ رہا ہے۔
فرنینڈز نے اپنے ہاتھ میں جو امبر گریس پکڑا ہوا تھا اس کی قیمت تقریباً 500,000 یورو (تقریباً 15 کروڑ پاکستانی روپے) تھی۔
100 میں سے تقریباً ایک سپرم وہیل میں پائے جانے والے امبرگریس کا آغاز 19ویں صدی کے اوائل میں بڑے پیمانے پر وہیل کے شکار سے ہوا۔
وہیل مچھلیاں بڑی مقدار میں سکویڈ اور کٹل فش کھاتی ہیں، جن میں سے زیادہ تر ہضم نہیں ہو پاتیں اور قے میں باہر آجاتی ہیں۔
لیکن کچھ معدے میں باقی رہ جاتی ہیں، اور سالوں تک وہیل کی آنتوں میں رہنے کے باعث آپس میں جڑ کر امبرگریس بناتی ہیں۔
کبھی کبھی یہ خارج ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ امبرگریس اکثر سمندر میں تیرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔
لیکن بعض اوقات، جیسا کہ لا پاما میں وہیل کے معاملے میں ہوا، یہ بہت بڑا ہو جاتا ہے، جس کتے باعث آنت پھٹ جاتی ہے اور وہیل مر جاتی ہے۔
امبرگریس میں صندل کی لکڑی جیسی خوشبو ہوتی ہے، لیکن اس میں ایمبرین بھی شامل ہوتا ہے، یہ ایک بنا کسی بو کا بغیر الکحل ہوتا ہے جو خوشبو کو بہتر بناتا ہے اور اس کی مدت کو بڑھا سکتا ہے، اس لیے عطر بنانے والوں میں اس کی مقبولیت ہے۔
امریکا، آسٹریلیا اور بھارت نے وہیل کے شکار اور استحصال پر پابندی کے تحت امبرگریس کی تجارت پر پابندی لگا دی ہے۔
نے ہزار سے زیادہ وہیلوں کا پوسٹ مارٹم کرنے والے فرنینڈزنے کہا کہ امبرگریس کی وجہ سے ہونے والے انفیکشن نے وہیل کو ہلاک کیا۔
انسٹی ٹیوٹ اب ایک خریدار کی تلاش میں ہے، اور فرنننڈز کہتے ہیں کہ انہیں امید ہے جمع کیے گئے فنڈز 2021 میں لا پاما میں پھٹنے والے آتش فشاں کے متاثرین کی مدد کے لیے جائیں گے، جس سے ملن یورو سے زیادہ کا نقصان ہوا تھا اور سیکڑوں مکانات اور کاروبار تباہ ہوئے تھے۔