ایک نئی تحقیق نے متعدد زرعی خطوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مستقبل میں فصل کی پیداوار نہ ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔
سائنس دانوں نے منگل کو جاری ایک بیان میں کہا کہ ان کی رپورٹ کو موسمیاتی تبدیلی سے ہمارے خوراک کے نظام کو لاحق خطرات کے بارے میں ”ویک اپ کال“ (خطرے کی گھنٹی) کے طور پر لیا جانا چاہئیے۔
نیچر کمیونیکیشنز میں شائع ہونے والی نئی تحقیق میں، امریکا اور جرمنی کے سائنس دانوں نے امکان ظاہر کیا کہ خوراک پیدا کرنے والے کئی بڑے علاقوں میں بیک وقت فصلوں کی پیداوار کمی کا شکار ہو سکتی ہے۔
کولمبیا یونیورسٹی کے ایک محقق اور جرمن کونسل برائے خارجہ تعلقات کے سرکردہ مصنف کائی کورن ہوبر نے کہا کہ یہ واقعات قیمتوں میں اضافے، خوراک کے عدم تحفظ اور یہاں تک کہ شہری بدامنی کا باعث بن سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’گرین ہاؤس گیسوں کے ارتکاز میں اضافہ کر کے، ہم اس نامعلوم خلاء میں داخل ہو رہے ہیں جہاں ہمیں اس بات کا صحیح اندازہ بھی نہیں کہ آگے کس قسم کی انتہاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا‘۔
مطالعہ میں 1960 اور 2014 کے درمیان اور پھر 2045 سے 2099 کے تخمینوں پر مشاہداتی اور آب و ہوا کے ماڈل کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا گیا۔
محققین نے سب سے پہلے جیٹ اسٹریم کے اثرات کو دیکھا، جیٹ اسٹریم ہوا کے دھارے کو کہا جاتا ہے جو دنیا کے بہت سے اہم فصل پیدا کرنے والے خطوں میں موسم کی تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔
انہوں نے جیٹ اسٹریم کی ایک ”زبردست حرکت“ کو ریکارڈ کیا، جو بڑی لہروں کی شکل میں بہہ رہی ہے اور خاص طور پر شمالی امریکا، مشرقی یورپ اور مشرقی ایشیا کے اہم زرعی علاقوں پر اہم اثرات مرتب کرتی ہے، ان علاقوں کی فصلوں میں سات فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔
کورن ہوبر نے کہا کہ اس کی ایک مثال 2010 میں دیکھی گئی تھی، جب جیٹ اسٹریم کے اتار چڑھاؤ کو روس کے کچھ حصوں میں شدید گرمی اور پاکستان میں تباہ کن سیلاب، دونوں سے جوڑا گیا تھا، جس سے فصل کی پیداوار کو نقصان پہنچا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں مستقبل میں اس قسم کے پیچیدہ ماحولیاتی خطرات کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔
پیر کے روز، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے بھوک اور مصائب سے بھرے خوفناک مستقبل کے بارے میں متنبہ کیا، کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے فصلوں، مویشیوں اور اہم ماحولیاتی نظام کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
انہوں نے اقوام متحدہ میں ”خوراک کے حق“ پر ہونے والی ایک بحث میں بتایا کہ 2021 میں 828 ملین سے زائد افراد کو بھوک کا سامنا کرنا پڑا اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے صدی کے وسط تک یہ تعداد 80 ملین تک بڑھ سکتی ہے۔
انہوں نے مختصر مدتی سوچ پر عالمی رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’ہمارا ماحول جل رہا ہے۔ یہ پگھل رہا ہے۔ سیلاب آ رہے ہیں۔ یہ ختم ہو رہا ہے۔ یہ خشک ہو رہا ہے۔ یہ مر رہا ہے‘۔
انہوں نے انسانوں کے مستقبل کو ”ڈسٹوپین“ قرار دیا، ایک ایسی تخیلاتی دنیا جہاں مصائب اور آفتوں کے سوا کچھ نہیں۔
انہوں نے کہا، ’موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا انسانی حقوق کا مسئلہ ہے … ابھی بھی وقت ہے کہ عمل کیا جائے‘۔
اقوام متحدہ کے کلائمیٹ سائنس ایڈوائزری پینل کے مطابق، موجودہ پالیسی کے رجحانات کے پیش نظر صدی کے آخر تک زمین 2.8 ڈگری سیلسیس (5 ڈگری فارن ہائیٹ) زیادہ گرم ہو جائے گی۔
اس درجہ حرارت میں اضافے کو زمین اور اس پر رہنے والے جانداروں کے لیے ”تباہ کن“ قرار دیا گیا ہے۔