پی اے سی نے سابق دورحکومت میں کرونا کے دوران تین ارب ڈالرکے آسان قرضے جاری کرنے کے معاملے پر سیکٹری خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک کو کل طلب کر لیا۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس نورعالم خان کی زیر صدارت ہوا، جس میں چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ کورونا کے دوران چند صنعتکاروں اور من پسند افراد کو 3 ارب ڈالر کے بلا سود قرضے دئیے گئے تھے۔
چیئرمین پی اے سی کے مطابق اسٹیٹ بینک نے معاملے پر وضاحتی خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کورونا کے دوران صنعتی شعبے کو سہارا دینے کیلئے قرضے دئیے گئے تھے، قرضے بلاسود نہیں تھے، بلکہ 5 فیصد پر دئیے گئے تھے، اور یہ قرضے ٹی ای آر ایف اسکیم کے تحت دئیے گئے تھے۔
چیئرمین نور عالم خان نے کہا کہ قرضے لینے والوں کے نام اور واپسی کی موجودہ صورتحال سے اسٹیٹ بینک نے آگاہ نہیں کیا۔
کمیٹی رکن برجیس طاہر نے کہا کہ 620 افراد اور کمپنیوں کو نوازنے کیلئے بلاسود قرضے دئیے گئے۔
پی اے سی نے سیکریٹری خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک کو کل طلب کر لیا، قرضے حاصل کرنے والوں کی فہرست بھی طلب کرلی۔
پی ٹی آئی کے رکن سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ یہ قرضے ٹی ای آر ایف اسکیم کے تحت صنعتی شعبے کو سہارا دینے کیلئے دئیے گئے تھے۔ برآمدات میں اضافے کیلئے دیئے جانے والے قرضوں سے 4 ارب ڈالر کی برآمدات ہوئیں۔
لیگی رکن برجیس طاہر اور پی ٹی آئی رکن محسن عزیز کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ جس پر چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ کمیٹی اجلاس کو بازار نہ بنائیں۔
محسن عزیز نے کہا کہ میں ربر اسٹیمپ کے طور پر کام نہیں کروں گا، تین ارب ڈالر کے قرضے دینے سے کورونا کے دوران 32 لاکھ افراد کو روزگار ملا۔
نور عالم خان نے کہا کہ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ قرضے لینے والوں کے نام سامنے آئیں۔
سینیٹر محسن عزیز نے اظہار برہمی کیا اور کہا کہ میں سچ بتائوں گا، قرضے دینے سے ملک کا جو فائدہ ہوا اسے بھی دیکھیں۔
پی اے سی نے تین ارب ڈالر قرضوں کے معاملہ پر ایف آئی اے، آڈٹ، نیب اور ملٹری انٹیلیجنس کی مشترکہ تحقیقات کی ہدایت کر دی۔ چیئرمین پی اے سی نے اسٹاف کو ہدایت کی کہ تحقیقاتی کمیٹی میں نمائندہ مقرر کرنے کیلئے چیف آف آرمی سٹاف کو بھی خط لکھیں۔
اجلاس کے دوران چیئرمین پی اے سی کا غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا کہ میں نے عید بھی گرڈ اسٹیشنوں پر گزاری ہے، افسروں کی تنخواہیں تو بڑھ جاتی ہیں لیکن عوام کو بجلی نہیں مل رہی۔
رکن پی اے سی رمیش کمار نے کہا کہ لوڈ شیڈنگ کی بڑی وجہ بجلی چوری ہے، مجھے تین علاقوں کا علم ہے جہاں چوری نہیں ہے اور زیرو لوڈشیڈنگ ہے۔
سیکرٹری توانائی نے بتایا کہ 30 جون تک بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ 2370 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔
کمیٹی نے توانائی ڈویژن کی آڈٹ رپورٹ 20-2019 کا جائزہ لیا، جس میں 4 ہزار ارب روپے سے زائد کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی، اور پی اے سی میں 128 ارب 23 کروڑ روپے کے 50 آڈٹ اعتراضات غور کیلئے پیش کیے گئے۔
پی اے سی نے محکمانہ اکاونٹس کمیٹی کے اجلاس نہ ہونے پر اظہار برہمی کیا، اور توانائی ڈویژن کے 9 ارب 20 کروڑ روپے کے 8 آڈٹ پیراز کی تحقیقات ایف آئی اے کے سپرد کر دی۔
چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ کمیٹی 14 جولائی تک کام کرے گی، اس کے بعد اسمبلی کی تحلیل تک ایک ماہ چھٹی کریں گے، تمام ارکان انتخابات تک اپنے حلقوں پر توجہ دیں گے۔