اسلام آباد: سپریم کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی کوئٹہ مقدمے میں عبوری ضمانت اور ہائی کورٹ کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا مسترد کردی۔
جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے وکیل عبدالرزاق شر کے قتل کا مقدمہ پڑھ کر سنایا اور وزیراعظم کے معاون خصوصی کے الزامات کا بتایا تو جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ٹی وی چیلنز کو چھوڑیں، ایف آئی آر سے متعلق بتائیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ مقتول وکیل عبدالرزاق شر کے بیٹے نے عمران خان کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرایا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات لگانے کا تعین کون کرتا ہے؟
سردار لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ بنیادی ذمہ داری تھانہ کے ایس ایچ او کی ہوتی ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر ایس ایچ او کا فیصلہ غلط ہے تو اس کے خلاف اے ٹی سی میں درخواست جائے گی یا نہیں؟ آپ کا حق ہے کہ جا کر متعلقہ فورم پر درخواست دیں کہ غلط دفعات لگائی گئی ہیں۔
وکیل نے چئیرمین پی ٹی آئی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کا بتایا تو جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کہ کیا جے آئی ٹی کو چیلنج کیا ہے؟
لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ مجھے معلوم نہیں میرے خلاف کیا کیا ہورہا ہے، البتہ ایس ایچ او تحقیقات کے مرحلے پر دہشت گردی کی دفعات عائد نہیں کر سکتا۔ اس پر جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئےکہ اب آپ اپنی ہی مخالفت میں دلائل دے رہے ہیں۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف حکم امتناع اور عبوری ضمانت دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے سرکاری وکیل سے مقدمے کی تفصیلات طب کرلیں۔
عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل اور پراسیکیوٹر جنرل بلوچستان سمیت دیگر فریقین کو نوٹس بھی جاری کردیئے۔