Aaj Logo

شائع 03 جولائ 2023 11:31am

ٹائٹن سب حادثے میں جاں بحق شہزادہ داؤد کی اہلیہ کے مزید انکشافات

ٹائی ٹینک کا ملبہ دیکھنے کے سفدر پر تباہ ہونے والی آبدوز ٹائٹن کی تباہی میں جان سے جانے والی پاکستانی ارب پتی شہزادہ داؤد کی بیوہ نے نئی تفصیلات کا انکشاف کیا ہے ، انہوں نے سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن کے دوران جہاز پرگزارے گئے وقت سے متعلق بات کی۔

اوشن گیٹ سبمرسیبل 18 جون کو ٹائی ٹینک کے ملبے تک 3800 میٹر کے طے شدہ سفر کے دوران لاپتہ ہو گئی تھی۔

حادثے میں جان سے جانے والے تمام 5 مسافروں میں آبدوز کمپنی کے سی ای او اسٹاکٹن رش، برطانوی ارب پتی ہمیش ہارڈنگ، فرانسیسی میرینر پال ہینری نارجیولیٹ اور پاکستانی کی معروف کاروباری داؤد فیملی سے تعلق رکھنے والے 48 سالہ شہزادہ داؤد اور ان کا 19 سالہ بیٹا سلیمان شامل ہیں۔

جس وقت ٹائٹن لاپتا ہوئی اس وقت شہزادہ داؤد کی اہلیہ کرسٹین داؤد اور ان کی بیٹی علینا پولر پرنس نامی جہاز پرسوار تھے، جو اوشین گیٹ کا ذیلی امدادی جہاز ہے۔

نیویارک ٹائمز کو دیے گئے طویل انٹرویو میں کرسٹین نے پولر پرنس پر اپنی موجودگی کے دوران خوف و ہراس کے ان لمحات سے متعلق بات کی جب ٹائٹن کی تلاش کا کام جاری تھا۔

انہوں نے بتایا کہ وہ سمندر کی طرف بھی دیکھ رہی تھی کہ شاید وہ انہیں منظر عام پر آتے ہوئے دیکھ سکیں۔

کرسٹین نے شوہراور بیٹے کے اس دورے سے متعلق بتایا کہ کس طرح 2012 میں سنگاپور میں ٹائی ٹینک کی 100 ویں سالگرہ کے موقع پر نمائش کا دورہ کرنے کے بعد کس طرح ان کا خاندان ٹائی ٹینک کے ملبے سے متاثر ہوا تھا۔

سال 2019 میں کرسٹین کو کو اوشن گیٹ کے لیے ایک اشتہار کا علم ہوا اور اصل میں انہیں اپنے شوہر کے ساتھ سفر پر جانا تھا لیکن بعد میں ان کی جگہ ان کے بیٹے نے لینے کا فیصلہ کیا۔

کرسٹین نے دعویٰ کیا کہ اوشن گیٹ نے بغیر کوئی ضمانت دیے اس سفرکا سلسلہ آگے بڑھایا، اور بتایا کہ آبدوزکو ٹائی ٹینک کے ملبے تک جانے میںتقریبا ڈھائی گھنٹے لگیں گے اور سطح پر واپس آنے میں بھی تقریباً اتنا ہی وقت لگے گا۔

اُن نے مطابق اس دوران 111 سال قبل 1912 ء میں برفانی تودے سے ٹکرانے کے بعد ڈوبنے والے تاریخہ بحری سمندری جہاز کے ملبے کا دورہ کرنے میں تقریبا چار گھنٹے لگنے تھے۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق ٹائٹن عام طور پر 25 میٹر فی منٹ یا 1.6 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے نیچے اترتی ہے، اس رفتار سے اندر موجود پانچ آدمیوں کے لئے حرکت کرنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ مبینہ طور پر اسٹاکٹن رش نے ٹائٹن کے نیچے اترنے کے دوران روشنیاں بند رکھیں تاکہ جب وہ ملبے تک پہنچیں تو توانائی کی بچت کی جا سکے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ مسافروں کے پاس سفر کو ٹریک کرنے کے لیے استعمال ہونے والے کمپیوٹر اسکرینوں اور لائٹ اپ پین سے صرف تھوڑی سی روشنی تھی۔حادثے کے وقت دونوں افراد اندھیرے میں تھے لیکن رش نے مسافروں کو بلوٹوتھ اسپیکر کے ذریعے موسیقی بجانے کی اجازت دی تاکہ انہیں آرام فراہم کیا جا سکے۔

کرسٹین داؤد نے دعویٰ کیا کہ ان کے شوہر کو سب کی انجینئرنگ کی بہت کم سمجھ تھی حالانکہ انہوں نے زندگی میں ایک بار سفر کے لیے 365,000 آسٹریلوی ڈالرز ادا کیے تھے۔

انہوں نے انٹرویو میں مزید کہا کہ ا نجینئرنگ کے اس پہلو کے بارے میں انہیں کوئی اندازہ نہیں تھا۔

کرسٹین داؤد کے مطابق، ’میرا مطلب ہے، آپ جہاز میں بیٹھ جاتے ہیں یہ جانے بغیر کہ انجن کیسے کام کرتا ہے‘۔

Read Comments