مصر میں گھوڑے کا گوشت فروخت کرنے پر گرفتار ہونے والے ایک پاکستانی کے سبب گدھا کھانے پر ایک عجیب بحث چند ماہ سے چھڑی ہے اور اب ایک مشہور مصری صحافی محمود سعد نے انکشاف کیا ہے کہ ایک قصاب نے انہیں اور ان کی فیملی کو 20 سال تک گدھے کو گوشت کھلایا اور وہ لاعلمی کے باعث گدھے کا گوشت کھاتے رہے۔
محمود سعد نے فیس بک پر جاری ایک ویڈیو میں بتایا ایک قصاب نے انہیں اور ان کی فیملی کو 20 سال تک دھوکے میں رکھا، اور وہ غفلت میں 20 سال تک اس قصاب سے گدھے کا گوشت لے کر کھاتے رہے۔
انہوں نے بتایا کہ قصاب کی دکان ان کی رہائش گاہ میں تھی، ان کی والدہ 20 سال سے اس قصاب سے گوشت خریدتی رہی تھیں۔
پھر محمود سعد نے کہا کہ ایک دن حسب معمول والدہ اس قصاب سے گوشت خریدنے گئیں تو حیران رہ گئیں کہ دکان سیل کر دی گئی تھی۔
مصری صحافی نے کہا کہ ہم نے تحقیق کی تو معلوم ہوا حکام کو دکان میں گدھے کا گوشت ملا تھا اس لیے دکنا سیل کردی گئی تھی۔
بعدازاں، حکام نے اس بات کی تصدیق کی کہ قصاب گزشتہ کئی برسوں سے اپنے گاہکوں کو گدھے کا گوشت فروخت کر رہا تھا۔
محمود سعد نے کہا کہ اس نشاندہی کے بعد ہم حیران رہ گئے اور سارا خاندان سکتے میں آگیا۔ ہمیں یقین نہیں آرہا تھا کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا ہے۔
مصر کی صحافی برادری میں گدھے کے گوشت پر بحث کو چلتے چار ماہ ہوگئے ہیں۔
رواں سال مارچ میں ایک صحافی نے ٹی وی پر اس حوالے سے سوال پوچھ کر ایک تنازع کھڑا کردیا تھا۔
صحافی تامر امین نے جب یہ سوال کیا کہ ’ہم مصری گھوڑے اور گدھے کا گوشت کیوں نہیں کھاتے؟ جب کہ میری معلومات کے مطابق ان کا گوشت کھانے پر کوئی مذہبی اعتراض بھی موجود نہیں ہے‘ تو وہاں ایک تنازع کھڑا ہو گیا جس پر جامعہ الازہر کو جواب دینا پڑ گیا تھا۔
مذکورہ مصری صحافی نے یہ سوال الدقھلیہ صوبے میں گھوڑے کا گوشت فروخت کرنے والے ایک پاکستانی کی گرفتاری کے بعد ٹی وی پر ایک بحث کے دوران کیا تھا۔
مصری صحافی کے اس متنازع بیان پر جامعۃ الازہر میں تقابلی فقہ کے پروفیسر ڈاکٹر احمد کریمہ نے اس وقت کہا تھا کہ مسلم فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ انسان کے لیے خچر اور گدھے کا گوشت کھانا حرام ہے۔
ڈاکٹر احمد کریمہ نے اس حوالے سے ٹی وی پر نشر بیان میں بتایا کہ گدھے اور خچر جیسی مخلوق کا گوشت کھانے کی حتمی ممانعت ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ فقہاء نے کتے، بلیوں، شیروں اور بھیڑیوں جیسے شکار کرنے والے ہر جانور کا گوشت بھی کھانے سے منع کیا ہے۔
مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کے بیٹے علاء مبارک نے بھی اس حوالے سے ٹویٹر پر لکھا، ’میری خواہش ہے کہ ہم اس معلومات سے نمٹنے کے دوران محتاط رہیں۔ مصری دار الافتاء نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ گدھے کو ذبح کرنا اور کھانا شریعت میں ممنوع ہے۔‘
مصر کے سرکاری اسلامی مشاورتی بورڈ دارالافتاء نے بھی فیس بک پر ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ ’اللہ کے رسول ﷺ نے خیبر کے دن گدھوں کا گوشت حرام قرار دیا تھا۔‘
خیال رہے کہ مصر میں گدھے کے گوشت کی فروخت کا رجحان دسمبر 2022 میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی طرف سے قاہرہ کے ساتھ بیل آؤٹ کی منظوری کے بعد سامنے آیا ہے، جو 2013 کی فوجی بغاوت میں صدر عبدالفتاح السیسی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے تیسرا معاہدہ ہے۔
امریکی ڈالر کے مقابلے میں مصری پاؤنڈ کی قدر بہت تیزی سے گری ہے۔
عرب خبر رساں ادارے ”مڈل ایسٹ آئی“ سے بات کرتے ہوئے تین بچوں کی ماں ایک اسکول ٹیچر رحمہ سعید نے کہا ’میں نے ان اونچی قیمتوں کی وجہ سے کافی عرصہ پہلے گوشت خریدنا بند کر دیا تھا۔‘
بہر حال، قاہرہ کی سڑکوں اور مصر کے دیگر شہروں میں ہر جگہ موجود گوشت کے اسٹالز پر بہت سے صارفین گدھے کا گوشت لاعلمی میں کھا چکے ہوں گے۔
وہ اسٹال جو پکے ہوئے پیٹھے اور جانوروں کے گوشت کے کٹے ہوئے حصے جیسے کہ زبان، اوجڑی اور دم بیچتے ہیں مصریوں میں بہت مقبول ہیں۔
تاہم، ریستورانوں کی ایک چین کے مبینہ مالک نے قوم کو یہ کہہ کر حیران کر دیا تھا کہ زیادہ تر اسٹال اپنے صارفین کو گدھے کا گوشت پیش کرتے ہیں۔
اس شخص نے کہا کہ ان اسٹالز کے مالکان مویشیوں کے اعضاء کے گوشت کی قیمت برداشت نہیں کر سکتے۔