فرانس میں پولیس کے ہاتھوں نوجوان کی ہلاکت کے خلاف احتجاج چوتھے روز میں داخل ہوگیا۔ جو دور دراز علاقوں تک پھیلنے کے بعد اب بے قابو ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ حکومت نے 45 ہزار اہلکار تعینات کر دیئے ہیں۔ ہنگامہ آرائی میں زیادہ تر نوجوان لڑکے ملوث ہیں۔ غیرملکی دورہ چھوڑ کر ہنگامی طور پر وطن پہنچنے والے فرانسیسی صدر نے جلاؤ گھیراؤ رکوانے کیلئے فسادیوں کے والدین سے کردار ادا کرنے کی اپیل کردی ہے۔
پولیس کے ہاتھوں نوجوان کے قتل کے خلاف فرانس کے مختلف شہروں میں احتجاج اور جلاؤ گھیراؤ کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت نے مظاہرے کنٹرول کرنے کے لیے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں کرفیو نافذ کردیا ہے۔ کرفیو کا اطلاق رات آٹھ بجے سے صبح آٹھ بجے تک کے لئے ہے۔
وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ آنے والے گھنٹے انتہائی فیصلہ کن ہیں، بڑے شہروں میں شاہراہوں پر 45 ہزار پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ فرانیسی حکومت کا کہنا ہے کہ امن وامان کی بحالی کے لیے تمام آپشن زیرغور ہیں۔
وزیر داخلہ نے صوبائی گورنرز کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ آتش بازی کے مارٹر، پٹرول کے کین، تیزاب اور آتش گیر اور کیمیائی مصنوعات کی “فروخت اور نقل و حمل پر پابندی کے احکامات کو منظم طریقے سے نافذ کریں۔
فرانس میں تا حکم ثانی پورے ملک میں بس اور ٹرام سروس رات نو بجے سے صبح چھ بجے تک بند رہیں گی۔ پیرس میں میٹرو سروس رات سوا ایک بجے تک جاری رہے گی۔
عالمی میڈیا کے مطابق کئی شہروں میں احتجاج کے دوران دو سو پولیس اہلکار زخمی ہوئے، پولیس اہلکاروں کے ساتھ جھڑپیں کرنے پر سیکڑوں مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
فرانس کے صدر برسلز سربراہ اجلاس میں شرکت کیے بغیر واپس پہنچ گئے ہیں، فرانس کے صدر نے ملک میں جلاؤ گھیراؤ رکوانے کیلئے والدین سے کردار ادا کرنے کی اپیل کردی ہے۔
فرانسیسی اسٹار فٹبالر مباپے نے بھی شہریوں سے پرتشدد مظاہرے ختم کرنے کی اپیل کردی۔ انھوں نے نوجوان کی موت کی مذمت کے ساتھ پر تشدد مظاہروں کی بھی مخالفت کی۔