پاکستان اورعالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) کے درمیان 3 ارب ڈالر کے اجرا کے لیے اسٹاف لیول کا معاہدہ ہوگیا ہے، جس کی آئی ایم ایف نے بھی تصدیق کی ہے لیکن اس کے نیتیجے میں پاکستان کو کیا فائدہ ہوگا یہ اہم ہے۔
معاہدہ پاکستان کے لیے ایک اہم پیش رفت کے طور پر سامنے آیا ہے، جو 8 ماہ کے طویل مذاکرات کے بعد ہوا ہے۔ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے ایکسٹنڈڈ فنڈ فسیلیٹی پروگرام کی مدت ختم ہونے میں صرف ایک دن باقی تھا۔ اگر جمعہ 30 جون کو معاہدہ نہ ہوتا، تو پروگرام ختم ہو جانا تھا۔ مالی سال 2023-24 کے جولائی تا مارچ تک کا ہوتا ہے، اسی حوالے کچھ اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں۔
پاکستان کے ساتھ نئے معاہدے کی باضابطہ منظوری کے لیے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کا جولائی کے وسط تک اجلاس ہونے کا امکان ہے۔
مذکورہ پیشرفت شارٹ سیلرز کے لیے اچھی خبر نہیں ہے، جبکہ امکان ہے کہ سرمایہ کاروں کی اکثریت اسے ایک اہم مثبت کے طور پر دیکھے گی اور (KSE100) جو مارکیٹ کی کارکردگی کا ایک معیار ہے، چھٹیاں ختم ہونے پر اوپر کی جانب جانے کا امکان ہے۔
پاکستان کے ڈالر نُما بانڈز میں بھی تیزی جاری رہنے کا امکان ہے۔
موڈیز، فٹچ اور ایس اینڈ پی کی جانب سے اعلان کردہ کئی تنزلیوں کے بعد درجہ بندی اپ گریڈ ہوسکتی ہیں۔
یہ نئی سہولت پاکستان کے لیے کیپٹل مارکیٹس تک رسائی کے راستے کو کھولتی ہے جس سے قرضے دینے کے لیے راستے کھلتے ہیں کیونکہ یہ اپنے بیرونی فنڈنگ گیپ کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستان نے مالی سال 2023-24 کے لیے یورو بانڈ/بین الاقوامی سکوک کے لئے پر 1.5 بلین ڈالر کا بجٹ رکھا ہے۔ اس رقم کا انحصار بین الاقوامی مارکیٹ میں پیش کیے جانے والے نرخوں پر ہونے کا امکان ہے۔
پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر سے متعلق دستیاب اعداد و شمار کے مطابق اس وقت 4 بلین ڈالر سے کم ہیں، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر دوطرفہ شراکت داروں کے ذریعے بھی اس میں اضافے کا امکان ہے۔
یہ نو ماہ کا ایک نیا پروگرام ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے اسٹیٹ بینک کو نئے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ معاہدہ انتخابات سے قبل حکومت کو کچھ گنجائش فراہم کرتا ہے اور معیشت کے لیے اقدامات کرنے ’نگران سیٹ اپ‘ کو بھی سہولت فراہم کرے گا۔
آئی ایم ایف اگلے نو ماہ تک اس بات کو یقینی بنائے گا کہ پاکستان اپنے معاشی اقدامات سے پیچھے نہ ہٹے اور اس سب میں ایک اہم چیز پر اپنی نگاہ رکھے گا وہ پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کا نفاذ ہوگا، جس کی نئی حد 60 روپے ہے۔
آئی ایم ایف نے تسلیم کیا کہ پاکستان کی معیشت کو کئی بیرونی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن اس نے فوری طور پراس بات کی نشاندہی کی کہ ”کچھ پالیسی غلطیاں“ تھیں، جن میں ”ایف ایکس مارکیٹ کے کام کرنے میں رکاوٹوں کی کمی“ بھی شامل تھی۔ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ کے درمیان شرح تبادلہ اور فرق کو قریب سے دیکھا جائے گا۔
آئی ایم ایف نے روشنی ڈالی کہ ”بجلی کے شعبے میں لیکویڈیٹی کی صورتحال بھی زیادہ ہے“۔ اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ بجلی کے نرخوں میں اضافے کا امکان ہے، ایک اور منظر نامہ ڈیویڈنڈ کی ادائیگی کے ذریعے گردشی قرضوں کا تصفیہ ہوسکتا ہے، ہمیں انتظار کرنا پڑے گا اور دیکھنا پڑے گا۔
اسٹیٹ بینک پر بھی چوکس نظر رہے گی اور یہ کہ وہ اپنی مانیٹری پالیسی کے ساتھ ساتھ درآمدی ترجیحات، مبادلہ کی شرح کو کیسے ہینڈل کرتا ہے۔ روپیہ مختصر مُدت میں بڑھ سکتا ہے لیکن آئی ایم ایف ”مبادلہ کی شرح کا مکمل تعین“ چاہتا ہے۔ پاکستانی ڈالر کی لیکویڈیٹی کے لحاظ سے روپے کو بڑھنا اور گرنا چاہیے، اب درآمدی پابندیاں ختم ہونے سے روپے پر بھی دباؤ پڑے گا۔
آئی ایم ایف نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کو مہنگائی کو کم کرنے کے لیے متحرک رہنا چاہیے اور موجودہ بین الاقوامی لین دین اور متعدد کرنسی کے طریقوں کے لیے ادائیگیوں اور منتقلی پر پابندیوں سے پاک غیرملکی کرنسی کا فریم ورک برقرار رکھنا چاہیے۔
پاکستان کو کثیر الجہتی اداروں اور دوطرفہ شراکت داروں سے مالی امداد کو متحرک کرنے اور انہیں ٹھوس رقوم میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہوگی کیونکہ اب تک جو رقوم گروی رکھی گئی ہیں وہ پاکستان کے سرکاری کھاتوں میں نہیں آئی ہیں۔
توانائی کے شعبے کی عملداری (بشمول مالی سال 24 کی سالانہ بحالی کے ذریعے) سرکاری اداروں کی حکمرانی کو بہتر بنانا، اور عوامی سرمایہ کاری کے انتظام کے فریم ورک کو مضبوط بنانا، بشمول موسمیاتی تبدیلیوں سے لچک پیدا کرنے کے لیے درکار منصوبوں پر توجہ مرکوز رکھی جائے گی۔