رواں ماہ کے اوائل میں یونان کے قریب کھلے سمندر میں ڈوبنے والی کشتی میں کم از کم 350 پاکستانی سوار تھے جن میں سے تقریباً 90 کا تعلق گجرات سے تھا۔ پاکستانی شہر گجرات سے تعلق رکھنے والے تقریبا 90 افراد جہاز میں سوار تھے، جن میں سے ہر ایک نے انسانی اسمگلروں کو 7,000 ڈالر ادا کیے تھے۔
42 سالہ طاہر ان 350 پاکستانیوں میں شامل تھے جو رواں ماہ کے اوائل میں یونان کے قریب کھلے سمندر میں ڈوب گئی تھی۔ اس کشتی پر مجموعی طور پر 750 غیر قانونی تارکین وطن سوار تھے جن میں سے صرف 104 زندہ بچ سکے تھے اور ڈوبنے والے 78 افراد کو یونانی حکام ساحل پرلائے تھے۔ اس کے بعد سے کچھ بھی نہیں ملا۔
طاہر نے تقریبا 15 سال قبل ایک کشتی کے ذریعے کامیابی کے ساتھ جرمنی کا سفرکیا تھا اور اس کے بعد اپنے تین بھائیوں کو بھی ملک میں ہجرت کرنے میں مدد کی تھی۔ ان میں سے دو فیصل اور شیراز اب اٹلی کے قانونی رہائشی ہیں جبکہ طاہر کو اپریل 2023 میں جرمنی سے پاکستان ڈی پورٹ کیا گیا تھا کیونکہ ان کے پاس ابھی تک درست دستاویزات موجود نہیں تھیں ۔
محمد طاہر کے بیٹے محمد طیب نے آخری بار 9 جون کو بھیجے گئے صوتی نوٹ میں والد کی آواز سنی تھی جس میں ان کا کہنا تھا کہا، ’السلام علیکم میرے بیٹے، ہم جہاز پر سوار ہو گئے ہیں، بس دعا کرتے رہو‘۔
عرب نیوزسے بات کرتے ہوئے طیب نے کہا، ’کوئی عید نہیں ہے، والد کے بغیر کیا عید ہے۔ ہم اللہ سے معجزے کے لیے دعا گو ہیں۔‘
حالیہ مہینوں میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر معاشی مشکلات کے درمیان پاکستانی خطرناک سمندری سفرکر رہے ہیں۔ صرف ضلع گجرات سے طاہر اور اس کے بھائی قیصر سمیت کم از کم 90 افراد 15 اپریل کو اسلام آباد ائرپورٹ سے کراچی کے لیے دبئی، مصر اوربالآخر لیبیا کے لیے روانہ ہوئے تھے، جہاں وہ جون میں تباہ شدہ کشتی پر سوار ہوئے تھے۔
گجرات سے تعلق رکھنے والے ہر شخص نے اسمگلروں کو تقریبا 7,000 ڈالر ادا کیے تھے اور اب تمام 90 لاپتہ ہیں اور انہیں مردہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ صورتحال غیر قانونی طور پر یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے لوگوں کو درپیش خطرات کو اجاگرکرتا ہے۔
طیب کے مطابق ’یہ ان کا مشن تھا کہ وہ اپنے بچوں کو بہتر مستقبل کے لیے وہاں لے جائیں‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ لیکن میں لوگوں کو مشورہ دوں گا کہ اس راستے سے مت جائیں۔ یہ ایک بہت خطرناک راستہ ہے اور مائیں اس راستے سے اپنے پیاروں کو واپس نہیں پاتی ہیں۔ یہ ایک خطرناک راستہ ہے اور وہاں کے ایجنٹ جان بوجھ کر یہ سب کچھ کرتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ضلع گجرات کے ہر خاندان کا کم از کم ایک رکن یورپ میں ہے اور وہاں کام کر کے اور ترسیلات زر واپس بھیجتا ہے۔ جس سے علاقے کے دیگر لوگوں میں یہ اعتماد پیدا ہوتا ہے کہ وہ بھی بیرون ملک بہتر زندگی کی تلاش میں اسمگلروں کے ذریعے وہاں جاسکتے ہیں۔
طاہر کی والدہ نےعرب نیوز کو بتایا، “انہوں نے [طاہر اور قیصر] نے ہم سے اپنے لیے دعا کرنے کو کہا، ان کا کہناتھا کہ ، ’ ہم ابھی جا رہے ہیں اور آپ کی دعائیں ہمیں منزل تک پہنچنے میں مدد دیں گی۔’
یہیں کے رہائشی 68 سالہ محمد دین بھی غمگین تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ اب بھی اپنے سوتیلے بیٹے 22 سالہ محمد فیضان علی کی کوئی خیر خبر ملنے کا انتظار کر رہے ہیں، جن کی بڑی بیٹی نے ،قامی اسمگلر کو 23 لاکھ 50 ہزار روپے (7 ہزار ڈالر سے زائد) ادا کرنے کے لیے زرعی زمین فروخت کی تھی تاکہ وہ اٹلی کا سفر کر سکیں۔
محمد دین نے بتایا، ’وہ بیرون ملک جانے پر بضد تھا، کہتا تھا، مجھے بھیجیں، میں اٹلی جانا چاہتا ہوں کیونکہ مجھے اپنے گھر کا خیال رکھنا ہے۔‘ اس نے اور کچھ نہیں کہا لیکن اصرار کیا کہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے ہم اسے بھیج دیں۔
اپنے ڈرائنگ روم میں ایک ٹوٹے ہوئے صوفے پر بیٹھے دین نے بتایا کہ برادری اس سال عید نہیں منائے گی۔
انہوں نے سوال کیا کہ ہماری عید کیا ہے، عید خوشی ہے اور ہماری خوشی کیا ہے؟ ’’بارہ، تیرہ دن ہو چکے ہیں۔ جب بھی ہم اسے یاد کرتے ہیں، ہم غمگین ہوتے ہیں اور آنسو بہاتے ہیں۔
گجرات کے سابق میونسپل میئر طاہر منڈا نے کہا کہ شہر کا ہر گھر سوگ میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ، ’ہم اس صورتحال کو محسوس بھی نہیں کر سکتے، ہم اسے بیان بھی نہیں کر سکتے۔ غمزدہ کنبے اپنی نیند کھو چکے ہیں، نہیں جانتے کہ ان کے بچے کہاں ہیں۔‘
طاہر منڈا نے سوال اٹھایا کہ ایجنٹ مافیا پہلے ہی انہیں دھوکہ دے کر بھاگ چکے ہیں لیکن ان خاندانوں کا کیا ہوگا جن کے پیارے لاپتہ ہیں یا مر چکے ہیں؟۔