ملک میں بگڑتی ہوئی میکرو اکنامک صورتحال کے باعث مالی سال 2022-23 کے دوران انٹر بینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی دیکھی گئی۔ تاہم آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پاجانے سے حوصلہ افزا خبرسامنے آئی ہے۔
نئے مالی سال پر 204.85 روپے سے آغاز کرنے والا روپیہ منگل (2 جون، 2023 کو امریکی ڈالر کے مقابلے میں 285.99 پر بند ہوا۔
عید الضحیٰ کے موقع پر سرکاری تعطیلات کا مطلب یہ ہے کہ مالی سال کا اختتام روپے کی قدر میں 81.14 روپے کی کمی یا اب تک کی بلند ترین 28 فیصد کمی کے ساتھ ہوا۔
واضح رہے کہ روپے کی قدر میں کمی اور روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر میں اضافہ دو مختلف اعداد و شمار ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کمی بنیادی طور پر قرضوں کی ادائیگی سے پیدا ہونے والے چیلنج کی وجہ سے ہوئی جس کے نتیجے میں ذخائر میں کمی کے ساتھ ساتھ سرمائے کے بہاؤ میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی۔
عارف حبیب لمیٹڈ (اے ایچ ایل) کے ہیڈ آف ریسرچ طاہر عباس نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ ”مالی سال کے دوران پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج بیرونی قرضوں کی ادائیگی تھی۔“
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال جولائی میں حکام بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ساتویں اور آٹھویں جائزے کی منظوری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے،تاہم اس کے بعد سے نواں جائزہ زیر التوا ہے جس کی وجہ سے فنانسنگ میں تاخیر ہوئیے۔
آئی ایم ایف بیل آؤٹ پروگرام کی بحالی میں تاخیر پاکستان کی معاشی بحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر ابھری ۔
ماہرین نے متعدد مواقع پر اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ قرض دہندگان کے معاہدے کی بحالی اہم ہے۔
طاہر عباس کے مطابق، “اگر آئی ایم ایف پروگرام کو بحال کیا جاتا ہے، تو اس سے کثیر الجہتی اور دو طرفہ شراکت داروں کے لئے مالی راستے کھلیں گے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ہمیں جلد ہی آئی ایم ایف کے ایک اور بڑے پروگرام کی ضرورت ہوگی۔
ماہر کا خیال تھا کہ پاکستان کا بنیادی مسئلہ امریکی ڈالر یعنی لیکویڈیٹی کی کمی ہے جس کی وجہ سے مقامی کرنسی دباؤ میں ہے۔
انہوں نے کہا، ”بین الاقوامی مارکیٹوں میں مالیاتی سختی نے پاکستان کی کیپٹل مارکیٹ تک رسائی کو بھی محدود کردیا۔“
انہوں نے کہا کہ اگر آئی ایم ایف اس میں شامل ہوتا ہے تو اس سے گرین بیک کی فراہمی میں بہتری آئے گی۔ تاہم اگر پروگرام دوبارہ شروع کیا جاتا ہے تو بھی کرنسی میں کوئی بڑی قدر کی توقع نہیں ہے، لیکن اس سے دباؤ میں کچھ کمی آئے گی۔
اسی طرح کے خیالات کا اظہار آئی جی آئی سکیورٹیز لمیٹڈ کے ریسرچ ہیڈ عبداللہ فرحان نے بھی کیا۔
تجزیہ کار نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ بیرونی قرضوں کی زیادہ ادائیگیوں کی وجہ سے پورے مالی سال کے دوران پاکستان کا ڈیفالٹ رسک زیادہ رہا۔ اس سے مقامی کرنسی کی قدر میں کمی واقع ہوتی ہے
انہوں نے مزید بتایا کہ ڈیفالٹ کا خدشہ بڑھنے کی وجہ سے مالی سال کے دوران اوپن اور انٹر بینک مارکیٹوں کے درمیان فرق میں بھی اضافہ ہوا۔ اس کے نتیجے میں ترسیلات زر میں کمی واقع ہوئی، کیونکہ ترسیلات زر کا رخ غیر رسمی چینلز کی طرف موڑ دیا گیا۔ تاہم، اس کے بعد سے فرق کم ہوا ہے اور ترسیلات زر میں بہتری کی توقع ہے۔
تجزیہ کار کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے ”قلیل مدتی استحکام اور روپے میں تھوڑی سی بہتری“ آئے گی۔
تاہم اس بات کا تعین دیگر کثیر الجہتی اور دوطرفہ شراکت داروں کی طرف سے کی جانے والی فنڈنگ کے ذریعے کیا جائے اور وہ ذخائر کو کس طرح تشکیل دیں گے. یہ روپے کے لئے زیادہ پائیدار تبدیلی لا سکتا ہے۔
“تاہم، نقطہ نظر کا تعین دوسرے کثیر جہتی اور دو طرفہ شراکت داروں کی طرف سے فنڈنگ کے ذریعے کیا جائے گا، اور یہ کہ وہ ذخائر کو کیسے تشکیل دیں گے۔ یہ روپے کے لیے مزید پائیدار تبدیلی لا سکتا ہے۔
کیلنڈر سال 2022 میں روپے کی قدر میں زبردست تبدیلی دیکھنے میں آئی اور 2008 کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد سے 12 ماہ کی بدترین مدت کا اختتام ہوا جس میں 22 فیصد کی گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے۔