Aaj Logo

شائع 29 جون 2023 02:48pm

آلائشوں سے 5 ارب روپے کیسے کمائے جائیں؟

ہر سال قربانی کے جانوروں کی آلائشیوں کو ٹھکانے لگانا حکومت اور شہری انتظامیہ دونوں کیلئے ایک سردرد اور خزانے پر بوجھ ثابت ہوتا ہے۔

شہری انتظامیہ سڑکوں سے جانوروں کی باقیات بشمول آلائشیں اور فضلہ جمع کرتی ہے اور پھر اس فضلے کو شہر کے باہر بنی خندقوں میں دفن کر دیا جاتا ہے تاکہ بدبو، مکھیوں اور صفائی سے جڑے پریشان کن مسائل کو روکا جا سکے۔

لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ اگر عیدالاضحیٰ کے موقع پر صرف کراچی سے جمع کی گئی آلائشوں کو ہی ری سائیکل کیا جائے تو حکام تقریباً 4.8 ارب روپے کما سکتے ہیں۔ جبکہ مزید دماغ لگایا جائے تو اس تخمینے میں 1.2 بلین روپے اضافہ ہوسکتا ہے۔

شہری انتظامیہ کیلئے یہ پیسے کمانے کا ایک بہترین موقع ہے کیونکہ کراچی والوں نے اس سال تقریباً 40 لاکھ جانور قربان کیے ہیں۔

اس صنعت سے وابستہ ذرائع نے آج نیوز کو بتایا کہ یہ کیسے کیا جاسکتا ہے۔

شوکت مختار کا کہنا ہے کہ ’عید الاضحی کے موقع پر پائیداری کو فروغ دینے اور فضلہ کم کرنے کی کوشش میں، شہری انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ مویشیوں کی آلائشوں کو دفنانے کے بجائے مؤثر طریقے سے استعمال کرے، کیونکہ اس سے معیشت میں سرمایہ پیدا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔‘

شوکت مختار ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن کراچی کے جنرل سیکرٹری ہیں۔

جانوروں کی آلائشوں سے پیسہ کیسے کمایا جاسکتا ہے؟

شوکت مختار نے وضاحت کی کہ مویشیوں کی آلائشوں کو درج ذیل طریقوں سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

سب سے پہلے، جانوروں کے پیٹ سے مائع فضلہ جمع کیا جائے، اسے فصل کی زیادہ سے زیادہ پیداوار کے لیے کھاد کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

دوسرا، ہم آلائشوں سے ”ٹرائپ“ (اوجڑی) حاصل کر سکتے ہیں۔ اوجڑی پیٹ میں موجود کھانے لائق پٹھوں کا ایک استر ہوتا ہے جو کیلوریز میں کم ہوتا اور اسے پروٹین کا ایک صحت مند ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

شوکت مختار نے کہا، ’اوجڑی کی قیمت تقریباً 300 روپے فی کلو ہے، اگر ہم اسے چین کو برآمد کریں تو اس کی قیمت تقریباً 1200 روپے فی کلو ہو گی، کیونکہ وہاں ان کی بہت زیادہ مانگ ہے۔‘

شوکت کے اندازے کے مطابق، ایک جانور میں تقریباً ایک کلو اوجڑی ہوتی ہے، اور ہر سال تقریباً 40 لاکھ جانور قربان کیے جاتے ہیں، اگر یہ اوجڑی پاکستان میں فروخت ہو تو اس سے تقریباً 1.2 ارب روپے کمائے جاسکتے ہیں، اگر اسے چین کو برآمد کیا جائے تو یہ رقم 4.8 بلین روپے ہوگی۔

تیسرا، مویشیوں کی آنتیں ہاٹ ڈاگ بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں، جو کہ امریکا اور یورپی ممالک میں مقبول ہیں۔

شوکت مختار نے زور دے کر کہا، ’امریکا اور یورپی ممالک جانوروں کی آنتوں کی فراہمی کے لیے اہم منڈیاں ہیں۔‘

بڑھتی ہوئی تعداد

سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ (SSWMB) کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال عید کے دوران 92,535 ٹن آلائشیں اور فضلہ اکٹھا کیا گیا، جو 2021 کے مقابلے میں تقریباً 10,000 ٹن زیادہ ہے۔

ایس ایس ڈبلیو ایم بی کے آپریشنز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر طارق نظامانی نے آج نیوز کو بتایا، ’ہم اس سال 110,000 ٹن آلائشوں اور فضلہ کی توقع کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے گزشتہ سال کے لیے ضلع وار جمع کیے گئے اعداد و شمار کا اشتراک کیا۔ جن کے مطابق ڈسٹرکٹ ایسٹ سے مجموعی طور پر 18,520 ٹن، ساؤتھ سے 13,349 ٹن، ملیر سے 8,303 ٹن، ویسٹ سے 10,177 ٹن، کیماڑی سے 11,163 ٹن، کورنگی سے 13,304 ٹن اور ڈسٹرکٹ سینٹرل سے 17,77 ٹن فضلہ اٹھایا گیا۔

آلائشوں کی ری سائیکلنگ کے بارے میں پوچھے جانے پر طارق نظامانی نے کہا،سندھ سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ کا آلائشوں کو ایک کموڈٹی کے طور پر استعمال کرنے کا منصوبہ ہے، اور ہم آنے والے سالوں میں آلائشوں کو ری سائیکل کرنے کے لیے پلانٹ قائم کریں گے۔ فی الحال، ہم نے بلدیہ اور شرافی میں گاربیج ٹرانسفر اسٹیشنز (GTS) پر دو پلانٹ قائم کیے ہیں، جو گھریلو فضلہ کو نامیاتی کھاد، پلاسٹک کے دانے اور پلاسٹک کے فلیکس میں ری سائیکل کرتے ہیں۔

آلائش ری سائیکلنگ پلانٹ کیسے لگایا جائے۔

آلائشوں کو ری سائیکل کرنے کے لیے ایک پلانٹ کو قیام کرنے میں آسانی کے حوالے سے شوکت مختار نے بتایا کہ اسے تقریباً 500 مربع گز کے فلیٹ ایریا، گرم اور ٹھنڈے پانی کی سہولیات، اور گندے پانی کو ضائع کرنے کے نظام کے ساتھ آسانی سے قائم کیا جا سکتا ہے۔

دھونے کے بعد، آلائش کو خشک یا منجمد کرکے طویل عرصے تک ذخیرہ کیا جاسکتا ہے، اور یہ خدمات کرائے پر دستیاب ہیں، جس سے خشک کرنے اور منجمد کرنے کے طریقہ کار میں سرمایہ کاری کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے۔

شوکت مختار نے مزید اظہار خیال کرتے ہوئے کہا، ’پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے آلائشوں کو ری سائیکل کرنے کے لیے پلانٹ لگائے جاسکتے ہیں، لیکن شعور کی کمی کی وجہ سے کراچی کے لوگ اس مالیاتی سرگرمی میں حصہ نہیں لے رہے ہیں۔‘

Read Comments