اگرچہ سپریم کورٹ فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائلز کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت ملتوی کر چکی ہے، لیکن فوج کا قانونی ونگ تحویل میں موجود 102 افراد کے خلاف باقاعدہ کارروائی سے پہلے ضابطہ کار کو مکمل کرنے میں لگا ہوا ہے۔
ڈان نیوز نے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ فوج کے قانونی محکمے نے زیر حراست افراد کے خلاف شواہد اکٹھے کر لیے ہیں، جبکہ مفرور افراد کے خلاف مقدمات بنائے جارہے ہیں۔
اس ہفتے کے شروع میں، چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطاء بندیال نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ فوج اس وقت تک اپنی تحویل میں موجود افراد کے خلاف قانونی کارروائی شروع نہیں کرے گی جب تک کہ عدالت ان درخواستوں کو نمٹا نہیں دیتی۔
تاہم، اسی دن، پاک فوج کے ترجمان لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے 102 مشتبہ افراد کی تحویل کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے سیکشن 2(1)(d) کے ساتھ پڑھے جانے والے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ 3، 7 اور 9 کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔
مشہور قانونی ماہر احمر بلال صوفی نے ڈان اخبار سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے ٹرائل کو قانونی حیثیت دینے کے لیے جج ایڈووکیٹ جنرل (جے اے جی) برانچ کو کچھ تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ چونکہ یہ مرحلہ ابھی تک آیا نہیں ہے، اس لیے اب تک کسی بھی زیر حراست شہری کا کوئی فوجی ٹرائل شروع نہیں ہوا ہے۔
جے اے جی برانچ کے کاموں میں سے ایک یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کون سی سیکشنز کس مشتبہ شخص پر لاگو ہوں گی۔
ڈان نے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ 9 مئی کے واقعات کے دوران پرتشدد مظاہرین نے نہ صرف ممنوعہ علاقوں میں گھس کر حملہ کیا بلکہ یادگاروں کی بے حرمتی کے علاوہ فوجی املاک کو بھی نقصان پہنچایا اور لوٹ مار کی۔ ان کارروائیوں سے ایسے افراد آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور اس کے نتیجے میں آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلنے کے اہل ہوگئے ہیں۔
سیکریٹ ایکٹ کے سیکشن 3 اور 3 اے ”ممنوعہ اور مطلع شدہ علاقوں کی تصاویر، خاکے وغیرہ کے خلاف پابندی“ سے متعلق ہیں۔
سیکشن 7 “پولیس افسران یا افواج پاکستان کے ارکان کے کاموں مداخلت کے بارے میں ہے۔
جبکہ دفعہ 9 کا تعلق ”کوششیں، اشتعال انگیزی وغیرہ“ سے ہے۔
پاکستان آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 (1) (d) میں کہا گیا ہے کہ “وہ افراد جو بصورت دیگر اس ایکٹ کے تابع نہیں ہیں، جن پر اس ایکٹ کے تابع کسی شخص کو اس کی ذمہ داری یا حکومت سے وفاداری سے بہکانے یا بھڑکانے کی کوشش کرنے کا الزام ہے، یا اس کا ارتکاب کیا ہے، دفاعی، ہتھیاروں، بحری، فوجی یا فضائیہ کے ادارے یا اسٹیشن، جہاز یا ہوائی جہاز یا بصورت دیگر پاکستان کے بحری، فوجی یا فضائیہ کے امور سے متعلق کسی بھی کام کے سلسلے میں، ان پر سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔
لہذا، 1923 کا آفیشل سیکرٹ ایکٹ دراصل فوج کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ آرمی ایکٹ کے تحت شہریوں کا ٹرائل کرسکیں۔
ویسے تو قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے ٹرائزل کی کوئی مثال نہیں ملتی، لیکن 26 جون کو اپنی پریس کانفرنس کے دوران، میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے نوٹ کیا کہ آرمی ایکٹ کئی دہائیوں سے قانونی فریم ورک کا حصہ رہا ہے، اور اس قانون کے تحت سینکڑوں مقدمات کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔
اور ڈان کا دعویٰ ہے کہ یہ حقیقت بھی ہے، صرف پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کے دور میں، سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر کم از کم 25 شہریوں کا کورٹ مارشل کیا گیا۔ لیکن یہ ٹرائلز شاید ہی شفاف تھے، کارروائی سے واقف وکیل کے مطابق، مشتبہ افراد کے بنیادی حقوق کی بڑی تعداد میں خلاف ورزی کی گئی۔
ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل انعام الرحیم نے ڈان کو بتایا، ’مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا اور خفیہ طور پر مقدمہ چلایا گیا۔ ان میں سے تین کو سزائے موت سنائی گئی۔‘
جے اے جی کے ایک سابق اہلکار، ایڈوکیٹ رحیم اس طرح کے ایک درجن سے زیادہ مقدمات میں وکیل تھے۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان تمام کیسز میں آئین کے آرٹیکل 4، 9، 10 اور 10 اے کی خلاف ورزی کی گئی کیونکہ ملزمان کی گرفتاری اور ٹرائل کے بارے میں نہ تو ان کے وکیل اور نہ ہی ان کے اہل خانہ کو آگاہ کیا گیا تھا۔
صحافی ادریس خٹک اور ریٹائرڈ ٹو سٹار جنرل کے بیٹے حسن عسکری بھی ایسے مجرموں میں شامل تھے۔