جسٹس یحییٰ آفریدی نے خصوصی عدالتوں کےٹرائل کے خلاف کیس سننے والے بینچ سے متعلق نوٹ میں کہا ہے کہ چیف جسٹس کوبینچ کی دوبارہ تشکیل پرغورکرناچاہیے۔
9 مئی کے ملزمان کے خصوصی عدالتوں کے ٹرائل کے خلاف کیس میں وفاقی حکومت کی جانب سے بینچ پر اعتراضات کے حوالے سے بینچ میں شامل جسٹس یحییٰ آفریدی نے متعلق نوٹ جاری کردیا ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ عدالتی نظام عوامی اعتماد پر منحصر ہوتا ہے، بینچ کے حوالے ہونے والی سیاسی باتیں دلچسپ ہیں، بینچ کی تشکیل پر بینچ ممبران کو ہی اعتراض ہے، اور سینئر ترین جج نے بینچ پر اعتراضات عائد کئے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے نوٹ میں مطالبہ کیا ہے کہ چیف جسٹس کو بینچ کی دوبارہ تشکیل پرغورکرنا چاہیے، اور وہ اس کیس پر فل کورٹ بینچ بنائیں، ویلینز کے ٹرائل کے مقدمات فل کورٹ کو بھجوائے جائیں۔
واضح رہے کہ جسٹس منصور نے بھی اپنے نوٹ میں فل کورٹ بنانے کی بات کی تھی، اور وہ اس کیس پر بننے والے بینچ سے علیحدہ ہوگئے تھے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے بینچ سے علیحدگی کا الگ نوٹ تحریر کرتے ہوئے کہا کہ اس مقدمے میں جسٹس جواد ایس خواجہ میرے رشتہ دار ہیں، بینچ سے علیحدگی کی ایسی درخواست مناسب ہو جج کے بہتر کے وہ کیس سے الگ ہو جائے، بینچ سے علیحدگی کی ایسی درخواست سے عوام میں شبہ ہو جج کو مقدمہ سننے سے معذرت کر لینی چاہیئے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت کی درخواست کو قبول کرکے خود کو بینچ سے الگ کرتا ہو، فوجی عدالتوں کے مقدمہ کیلئے فل کورٹ تشکیل نہ دئیے جانے پر میرے شدید تحفظات تھے، اس کے باجود بینچ کا حصہ بنا اور مقدمہ سنا۔
سپریم کورٹ نے خصوصی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے حوالے سے 23 جون کی سماعت کا حکم نامہ جاری کردیا۔
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر دوسری سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزاروں کے وکلاء نے اپنے دلائل مکمل کرلیے، اٹارنی جنرل نے زیرحراست افراد کی تفصیلات پیش کیں، اٹارنی جنرل نے بتایا اسلام آباد میں کوئی ملزم موجود نہیں۔
عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ پنجاب میں 616، سندھ میں 172 افراد سویلین تحویل میں ہیں، بلوچستان سے تفصیلات عدالت کو فراہم نہیں کی گئیں، پنجاب میں 81 خواتین کو حراست میں لیا گیا، 42 خواتین کو بری یا ضمانت پر رہا کیا گیا ہے۔
حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ اس وقت 39 خواتین جوڈیشل کسٹڈی میں موجود ہیں، اٹارنی جنرل کے مطابق اس وقت ملک بھر میں 102 افراد فوج کی حراست میں ہیں جبکہ ان افراد میں کوئی خاتون، صحافی، نابالغ بچے یا وکلا نہیں۔