یونان کے مغربی ساحل کے قریب 14 جون کو کشتی ڈوبنے کے حادثے میں زندہ بچ جانے والوں نے بتایا ہے کہ پناہ گزینوں سے بھری کشتی کس طرح ڈوب گئی تھی۔
اس حوالے سے الجزیرہ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زندہ بچ جانے والوں نے متضاد رپورٹس دی ہیں ۔ زندہ بچ جانے والوں میں 104 افراد میں سے عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جہاز پر 750 افراد سوار تھے۔ 13 جون کو مقامی وقت کے مطابق رات 2 بجے کے قریب ماہی گیری کا ٹرالر الٹنے کے بعد بحیرہ آئونین میں پیلوس سے 75 کلومیٹر (47 میل) کے فاصلے پر واقع جائے وقوعہ سے 82 لاشیں برآمد کی گئیں۔
الجزیرہ کو بتایا گیا ہے کہ جہاز میں ڈوبنے والوں میں 100 کے قریب بچے اور نوجوان شامل ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق شام سے تھا۔
مصر سے تعلق رکھنے والے محمد الحسینی نے بتایا کہ وہاں چھ یا سات خواتین تھیں جن کے بچے تھے اور ان کے خاندان بھی تھے، کشتی اوور لوڈ ہونے کے سبب ڈوبی۔ٹرالر اس لیے ڈوب گیا۔ انہوں نے بتایا کہ، ’جب سے ہم کشتی پر سوار ہوئے، یہ مسلسل ایک طرف سے دوسری طرف ڈول رہی تھی اور جب اس نے آخری بار ایسا ہوا، تو ہم نے سوچا کہ اب بھی پہلے کی طرح ہوگا، لیکن ایسا نہیں تھا۔
ایک اور مسافرالہوساری نے بتایا کہ سمندر میں پانچویں دن تک کشتی کا انجن اسٹارٹ اور رک رہا تھا، شاید یہی وجہ ہے کہ یہ ڈوب گئی۫۔
ڈوبنے کے بعد کے ابتدائی لمحات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ، ’جب کشتی الٹ گئی تو میں لاشوں کے درمیان تیر رہا تھا، ہم پانی میں 5 یا 6 میٹر سے 20 فٹ نیچے چلے گئے۔ میں سطح پر جانا چاہتا تھا، لیکن دوسرے لوگ مجھے پکڑے ہوئے تھے۔ جیسے ہی میں سطح پر پہنچا، میں نے لاشوں کو دیکھا، اور کوئی مجھے کھینچ رہا تھا۔‘
بہت سےدیگر زندہ بچ جانے والوں کا خیال ہے کہ یونانی کوسٹ گارڈ کشتی ڈوبنے کے وقت وہاں موجود تھی اورواقعے کی عینی شاہد بھی ہے، وہی اس سانحے کی جزوی ذمہ دار ہے۔
اسماعیلیہ سے تعلق رکھنے والے ایک اور مصری زندہ بچ جانے والے شخص نے بتایا کہ کوسٹ گارڈز نے ٹرالر کو محفوظ مقام تک پہنچانے کی کوشش کی۔ انہوں نے محمود شالابی کا فرضی نام استعمال کیا۔
شالابی نے کہا، “کوسٹ گارڈ نے کمانوں کی بندرگاہ کی طرف ایک رسی باندھ دی۔ جیسے ہی کوسٹ گارڈ نے ٹرالر کو اتارا، “کشتی ایک طرف سے دوسری طرف جُھکتی چلی گئی، اور جب انہوں نے رسی کو کاٹا، تو وہ اچانک جُھک گئی۔انہیں ہمیں محفوظ بنانے کیلئے کساتھ مل کر کام کرنا چاہیے تھا اور ٹوئنگ میں مدد کرنی چاہیے تھی۔ انہوں نے ہمیں تھوڑی ہی دوری پر کھینچ لیا اور پھر رسی کاٹ دی۔
دوسری جانب یونانی کوسٹ گارڈ نے اعتراف کیا ہے کہ اس کا ایک بحری جہاز جائے وقوعہ پر موجود تھا لیکن ابتداء میں انہوں نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ ان کا کشتی سے کوئی جسمانی رابطہ تھا۔
کپتان نے بتایا کہ کشتی کا انجن 14 جون (13 جون کو مقامی وقت کے مطابق 22:40 بجے) رات ایک بج کر 40 منٹ پر فیل ہو گیا 20 منٹ کے اندر انہوں نے دیکھا کہ کشتی تیزی سے اسٹار بورڈ پرجارہی ہے، پھر بندرگاہ اور،پھر دوبارہ اسٹار بورڈ کر رہی ہے اور الٹ گئی ہے۔
مچھلی پکڑنے والی یہ Kشتی 25 سے 30 میٹر لمبی تھی۔
کوسٹ گارڈ کے ترجمان نکولاوس الیکسیو نے سرکاری ٹی وی ای آر ٹی کو بتایا کہ کشتی کا ڈیک لوگوں سے بھرا ہوا تھا اور ہم سمجھتے ہیں کہ اندرونی حصہ بھی اتنا ہی بھرا ہوا تھا۔
انہوں نے کہا، ’جب تک تعاون نہ ہو، آپ زبردستی کشتی کا رخ نہیں موڑ سکتے جس میں اتنے سارے لوگ سوار ہوں‘۔
یونان کی سپریم کورٹ تارکین وطن کی کشتی حادثے کی تحقیقات کر رہی ہے۔
یہ کہانی اس وقت تبدیل ہوئی جب بائیں بازو کے سیریزا کے حزب اختلاف کے رہنما الیکسس سپراس نے کالاماٹا میں گودی کا دورہ کیا اور اگلے دن زندہ بچ جانے والوں سے بات کی۔ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ زندہ بچ جانے والا ایک شخص سیپراس کو بتا رہا ہے کہ کشتی اس وقت الٹی جب کوسٹ گارڈ نے اسے زیادہ رفتار سے کھینچنے کی کوشش کی۔
سابق وزیر اعظم نے سوال کیا کہ ’تو یونانی کوسٹ گارڈ نے آپ کو کھینچنے کے لیے رسی کا استعمال کیا اور اسی طرح آپ ڈوب گئے؟‘
حکومت کے ترجمان الیاس سیکانتاریس نے جمعے کے روز ٹیلی ویژن پر اس بات کا اعتراف کیا کہ کوسٹ گارڈ کے جہاز نے کشتی کو ’مستحکم‘ کرنے کے لیے رسی کی پیشکش کی تھی لیکن اسے مسترد کر دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ کشتی کو باندھنے کی کوشش نہ تو ہم نے کی اور نہ ہی کسی اور جہاز نے کی۔
کوسٹ گارڈ کے اس دعوے پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ 13 جون کے دوران کشتی نے اٹلی کی جانب تیزی سے 30 ناٹیکل میل کا فاصلہ طے کیا اور خوراک اور پانی کے علاوہ ہر قسم کی مدد سے انکار کر یا۔
تاہم پناہ گزینوں کے لیے ہنگامی ہاٹ لائن الارم فون نے ایک ای میل جاری کی جس میں اس نے کوسٹ گارڈ کو بتایا کہ کشتیمشکلات کا شکار ہے، جس سے تقریبا نو گھنٹے قبل(مقامی وقت کے مطابق 14:00 بجے) کوسٹ گارڈ نے کہا تھا کہ کشتی کے انجن فیل ہو گئے تھے۔
الارم فون نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ آیا کشتی کو بجلی یا کنٹرول سے محروم ہونا پڑا تھا یا نہیں، لیکن برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک علیحدہ تحقیقات کے مطابق میرین ٹریفک بیکن سے پتہ چلتا ہے کہ کشتی کی مدد کرنے والے تجارتی جہاز سہ پہر تین بجے (مقامی وقت کے مطابق 12:00 بجے) کے قریب اس جگہ کے اطرافگھوم رہے تھے جہاں وہ بعد میں ڈوب گئی تھی۔
یونانی کوسٹ گارڈ نے میرین ٹریفک شواہد کو مسترد کر دیا ہے، کوسٹ گارڈ کے مطابق اس کا جہاز مغربی کریٹ میں واقع چنیا سے مقامی وقت کے مطابق سہ پہر ساڑھے تین بجے روانہ ہوا اور رات 10 بج کر 40 منٹ پر کشتی تک پہنچا۔
اس ٹائمنگ کے مطابق، جس ٹرالر کی ٹاپ اسپیڈ 32 ناٹ ہے، اسے تقریبا 275 کلومیٹر (170 میل) کا فاصلہ طے کرنے میں سات گھنٹے لگے، جبکہ اسمیں ساڑھے پانچ گھنٹے کا وقت لگنا چاہئیے تھا۔
کوسٹ گارڈ نے نشاندہی کی کہ اس نے گزشتہ چند سالوں میں سمندر میں ہزاروں جانیں بچائی ہیں اور ایک بار جب گنجائش سے زائد مسافروں والی کشتیاں شمالی افریقی ساحل سے روانہ ہوجاتی ہیں تو بحیرہ روم میں کوسٹ گارڈز کو خطرناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یونانی کوسٹ گارڈ پر کسی بھی قسم کا شک اس وجہ سے ہے کہ وہ پہلے بھی غلطی کر چکے ہیں۔
تازہ ترین سانحہ فروری 2014 کی یاد دلاتا ہے جب کوسٹ گارڈز نے مشرقی بحیرہ ایجیئن میں فارماکونیسی کے قریب ایک کشتی کو تیز رفتاری سے ٹو کیا تھا اورگیارہ افغان خواتین اور بچے ڈوب گئے تھے۔ زندہ بچ جانے والوں نے بتایا کہ کوسٹ گارڈ انہیں ترکی واپس لے جانے کی کوشش کر رہا تھا۔
مارچ 2020 کے بعد ترکی نے اعلان کیا کہ وہ یورپی یونین کے ساتھ معاہدے کی شرائط کی تعمیل نہیں کرے گا جس میں دونوں فریقوں نے پناہ گزینوں اور غیر قانونی تارکین وطن کو روکنے اور دوبارہ بھیجنے کا وعدہ کیا تھا۔
ڈوبنے والی کشتی پر سوار مسافروں کے رشتہ دار اپنے پیاروں کو تلاش کرنے کے لیے یونان پہنچ رہے ہیں
احمد آیادی شعیب نے اپنے بھتیجے محمد کی تلاش میں اٹلی سے ایتھنز سے 40 کلومیٹر (24 میل) شمال میں واقع ملاکاسا استقبالیہ کیمپ کا سفر کیا۔
ملاکاسا وہ جگہ ہے جہاں زندہ بچ جانے والوں کو لے جایا گیا۔شعیب کا کہنا تھا کہ ’وہ ان 33 لڑکوں میں سے ایک تھا جن کی عمریں 17 سال تھیں اورجو اپنے والد کی رضامندی کے بغیر لیبیا چلے گئے تھے۔‘
اسمگلروں کے چنگل میں پھنسنے کے بعد شعیب کے بھتیجے محمد کے ذہن میں دوسرا خیال آیا۔
شعیب کے مطابق ’جب وہ لیبیا پہنچے تو اس سے مصر واپس جانے کے لیے پیسے مانگے گئے،اسمگلروں نے لڑکوں کے والد سے پیسے مانگے، یا انہوں نے کہا کہ وہ لڑکوں کو مار ڈالیں گے۔‘
الجزیرہ سے بات کرتے تک شعیب کو اپنا بھتیجا نہیں ملا، ممکنہ طور پر وہ اپنے درجنوں دوستوں کے ساتھ بحیرہ آئونین کی تہہ میں ہو سکتا ہے۔