امریکی اخبار نے پاک فوج سے وابستہ اعلیٰ سیکیورٹی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ کوئی ثبوت ایسا نہیں ملا کہ 9 مئی کو فوج میں اندرونی بغاوت پلان کی گئی ہو۔
صحافی سلمان مسعود جو پاکستان سے امریکی اخبارنیویارک ٹائمز کے لیے رپورٹنگ بھی کرتے ہیں، انہوں نے ٹوئٹر پر جاری ایک پیغام میں لکھا، ’اعلیٰ سیکورٹی حکام کے مطابق، کوئی ثبوت 9 مئی کے دن (فوج میں) کسی اندرونی بغاوت کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔‘
انہوں نے لکھا، ’بغاوت کو انجام دینے کے لیے مبینہ مجرموں اور جی ایچ کیو کے اندر موجود افراد کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے، جو نہیں پائی گئی۔ برطرف افسران کا احتساب ان کی لاپرواہی اور فوجی تنصیبات کی حفاظت میں ناکامی پر کیا گیا‘۔
نیویارک ٹائمز کے لیے ایک رپورٹ میں سلمان مسعود نے مزید لکھا کہ جن تین افسران کو برطرف کیا گیا ہے ان میں سابق کور کمانڈر لاہور لیفٹیننٹ جنرل سلمان فیاض غنی بھی شامل ہیں۔
پیر کو پاک فوج کے ترجمان ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (ڈی جی آئی ایس پی آر) میجرل جنرل احمد شریف چوہدری نے ایک اہم پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ سانحہ 9 مئی پر انکوائری کے بعد ایک لیفٹیننٹ جنرل سمیت 3 افسران کو برطرف کردیا گیا ہے، 3 میجر جنرلز اور 7 بریگیڈیئرز سمیت 15 افسران جو سخت سزائیں دی جا چکی ہیں جب کہ ریٹائرڈ افسران کے رشتہ داروں کیخلاف کارروائی ہو رہی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سینئر کمانڈروں کی سزاؤں کا فیصلہ اندرونی انکوائری کے بعد کیا گیا۔
سلمان مسعود نے نیو یارک ٹائمز کی اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ سیکیورٹی حکام کے مطابق جن افسران کو برطرف کیا گیا ان میں لاہور کے کور کمانڈر لاہور لیفٹیننٹ جنرل سلمان فیاض غنی بھی شامل ہیں، جن کی سرکاری رہائش گاہ پر احتجاج کے دوران توڑ پھوڑ کی گئی۔
سلمان مسعود کی رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی حکام نے بتایا کہ فوج کے اعلیٰ رہنماؤں میں سے ایک جنرل غنی کو مظاہرے شروع ہونے کے بعد رہائش گاہ کو محفوظ بنانے کی ہدایت کی گئی تھی، لیکن انہوں نے گارڈز کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا جس کی وجہ سے ہزاروں مظاہرین اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔
سیکیورٹی حکام نے بتایا کہ کور کمانڈر کا اندازہ غلط تھا کہ مظاہرین پُرامن رہیں گے۔ مظاہرین نے ان کی سرکاری رہائش گاہ کو نذر آتش کر دیا، اور انہیں اپنے خاندان سمیت فرار ہونا پڑا۔