سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کی پے در پے کارروائیوں سے تنگ شادی ہال مالکان نے عید کے بعد شادی ہالز بند کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔ ایس بی سی اے کے اندھے قانون کے باعث کراچی والوں کی شادیاں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔
شادی ہال ایسوسی ایشن کے صدر رانا رئیس کا کہنا ہے کہ اگر شادی ہال مسمار کرنے کا سلسلہ بند نہ ہوا تو عید بعد شادی کی تقریبات کا بائیکاٹ کرکے احتجاج کیا جائے گا۔
شادی ہال ایسوسی ایشن کے صدر رانا رئیس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایس بی سی اے اور انتظامیہ شہر میں قانونی ہال کو بھی مسمار کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ شادی ہال سے متعلق تمام دستاویزات موجود ہیں، تمام قانونی کاغذات کی موجودگی کے باوجود مسلسل شادی ہالز کو مسمار کیا جارہا ہے۔
رانا رئیس کا کہنا ہے کہ ایس بی سی اے کی کارروائی کے خلاف شادی ہال مالکان میں غم و غصے کی لہر پائی جاتی ہے۔
کراچی کے شادی ہالوں کی مسماری کے خلاف تاجر برادری نے بھی احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔
تاجر برادری کا کہنا ہے کہ ایس بی سی اے کے خلاف احتجاج کیا جائے گا، اور اگر اعلیٰ حکام نے نظر ثانی نہیں کی تو احتجاج کا دائرہ وسیع کیا جائے گا۔
صدر شادی ہال ایسوسی ایشن کے مطابق تمام شادی ہالز میں تقریبات روکنے کے حوالے سے مشاورت جاری ہے۔ اگر ہمارے مطالبات منظور نہ کیے گئے تو عید کے بعد شادی ہال بند کردیں گے۔
خیال رہے کہ خصوصاً عیدالاضحیٰ کے بعد شادی کی تاریخیں طے کی جاتی ہیں، بعض لوگ قربانی کے گوشت سے ہی شادی کا کھانا تیار کروا لیتے ہیں۔ ایسے میں ہزاروں شادیاں رکنے کا خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں کراچی میں شادی کی تقریب کا بائیکاٹ کریں گے، اس کے بعد سندھ بھر میں شادی ہال بند کریں گے۔
رانا رئیس نے کہا کہ رات کی تاریکی میں شادی ہال مسمار کرنے کے لیے ٹیم اچانک پہنچ جاتی ہے، رات کے وقت شادی ہال میں لیبر آرام کر رہی ہوتی ہے، بغیر اطلاع اور قانونی اجازت کے شادی ہال مسمار کردیا جاتا ہے، رات کی تاریکی میں آپریشن کے باعث لیبر کی جان کو نقصان کا خدشہ ہے، اگر کسی بھی لیبر کی جان کو نقصان پہنچا تو ذمہ دار انتظامیہ ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ صدر آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری صاحب سے مطالبہ کرتے ہیں کے ہمارے ساتھ ہونے والے ظلم پر نوٹس لیں۔
دوسری جانب ایس بی سی اے کا مؤقف ہے کہ مسمار کئے گئے تمام شادی ہالز غیرقانونی ہیں۔
ایس بی سی اے کی شرائط کے مطابق شادی ہال کے آگے 40 فٹ چوڑا روڈ ہونا چاہئیے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس تناظر میں دیکھیں تو کراچی کے 90 فیصد شادی ہالز غیرقانونی ہیں۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ کارروائیاں لین دین کا معاملہ ہیں، جس نے پیسے دیے تو وہ ٹھیک ہے ، جس نے نہیں دیے اس کا شادی ہال مسمار کردیا جاتا ہے۔ تضاد یہ ہے اگر ایک ”غیرقانونی“ شادی ہال مسمار کیا جارہا ہے تو اس کے برابر یا سامنے والا ہال کھڑا منہ چڑا رہا ہے۔
چند روز قبل بھی پریڈی پولیس نے ایس بی سی اے کے تین افسران کو بلڈر سے بھتہ لینے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
دوسری جانب ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) سینٹرل طحہٰ سلیم کا واٹر پمپ سے کیفے پیالہ تک رہائشی پلاٹوں پر بنائے گئے غیر قانونی شادی ہالز کے خلاف جاری انسداد تجاوزات مہم کے بارے موقف ہے کہ یہ شادی ہال علاقے میں ٹریفک جام کا باعث بن رہے ہیں، جس سے علاقہ مکینوں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔
سرکاری خط و کتاب کے مطابق ڈی سی طحہٰ سلیم کا کہنا ہے کہ شادی ہالز کا عملہ بچے ہوئے کھانے کا فضلہ سیوریج لائنوں میں ڈالتا ہوا پایا گیا ہے، جس سے نا صرف لائنیں چوک ہو رہی ہیں بلکہ اس سے ماحول بھی آلودہ ہو رہا ہے۔
ایک ای میل میں انہوں نے لکھا، ’آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہم نے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ان شادی ہالوں کو رہائشی علاقوں سے خالی کرانے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں۔‘
خیال رہے کہ ڈسٹرکٹ سینٹرل گلبرگ میں رہائشی پٹی پر قائم کئی شادی ہال مسمار کیے جاچکے ہیں۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے عملے نے 14 مئی کی شب گلبرگ کے علاقے واٹر پمپ چورنگی سے کیفے پیالہ تک قائم 14 شادی ہال مسمار کیے۔
ڈی سی سینٹرل کا کہنا ہے کہ رہائشی پلاٹوں کو کمرشل طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس دوران علاقہ مکینوں کا کہنا تھا کہ جو کام حکومت کو آج سے 15 سے 20 سال قبل کرنا چاہیے تھا وہ اب کیا ہے تاہم دیر آید درست آید۔
ان کا کہنا تھا کہ رات بھر پٹاخے پھاڑے جاتے ہیں ، فائرنگ ہوتی رہتی ہے بچوں کو اسکول جانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ شادی میں آنے والے اپنی گاڑیان گلیوں میں ان کے گھروں کے سامنے کھڑی کر دیتے ہیں جس سے انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مکینوں کا کہنا تھا کہ جس پٹی پر شادی ہال قائم ہیں اسی پٹی پر کوچنگ سینٹر ، اسکولز ، سی اینی جی فلنگ اسٹیشن ، دکانیں ، مارکیٹین اور دیگر کمرشل کام چل رہے ہیں جس طرح شادی ہال توڑے گئے اسی طرح انہیں بھی ختم کیا جانا چاہیے۔
شادی ہال میں کام کرنے والے ویٹرز کا کہنا تھا کہ وہ کئی سالوں سے یہاں کام کر رہے تھے، شادی ہال ٹوٹنے سے وہ بے روزگار ہوگئے ہیں، اب حکومت کو چاہیے کہ ان کے روزگار کا بھی انتظام کرے کیونکہ یہ بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔