ٹام اسٹوکر نامی امریکی شہری کوئی عام فضائی مسافر نہیں ہے۔
نیو جرسی سے تعلق رکھنے والے 69 سالہ ٹام اسٹوکر نے تین دہائی قبل یونائیٹڈ ایئرلائنز سے ایک لائف ٹائم پاس خریدا اور اس کے بعد انہوں نے اب تک 2 کروڑ 30 لاکھ میل سے زیادہ کا فضائی سفر کیا ہے اور 100 سے زائد ممالک کے دورے کرچکے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ٹام اسٹوکر نے 1990 میں لائف ٹائم پاس کے لیے دو لاکھ 90 ہزار ڈالرز (پاکستانی سکہ رائج الوقت کے مطابق تقریباً 82 کروڑ 77 لاکھ روپے سے زائد) ادا کیے تھے۔
یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جو ان کے بقول ان کی زندگی کی بہترین سرمایہ کاری تھی۔
ٹام، 1969 میں نیل آرمسٹرانگ کو چاند پر لے جانے کیلئے 9 لاکھ 53 ہزار میل کا سفر کرنے والے اپولو 11 خلائی جہاز سے تقریباً 22 ملین میل زیادہ پرواز کر چکے ہیں۔
اسٹوکر کی صرف 2019 میں کی گئی 373 پروازیں ہی چاند کے چھ سے زیادہ دوروں کا احاطہ کرتی ہیں۔
اگر انہوں نے ان پروازوں کے لیے نقد رقم ادا کی ہوتی تو اس پر 2.4 ملین امریکی ڈالر لاگت آتی۔
پروازوں کی اس سہولت نے انہیں اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ سلطانوں کی طرح زندگی بسر کرسکیں۔
ایوی ایشن نیوز سائٹ سمپل فلائنگ کے مطابق، انہوں نے 2009 میں پانچ ملین میل کا ہندسہ عبور کیا، اور 2019 میں 10 ملین میل مکمل کئے۔
کسی ائیرلائن میں تواتر سے سفر کرنے والے مسافروں کو مخصوص ہدف مکمل کرنے پر خصوصی مراعات، گفٹ کارڈز اور مختلف ہوٹلز میں رہائش کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، انہوں نے پرتھ سے پیرس تک پوری دنیا میں شاندار ہوٹلوں کے سوئٹ، ہفتہ بھر کی سیر اور نفیس کھانوں کا لطف اٹھایا ہے۔
انہوں نے اپنے بھائی کے گھر کو دوبارہ بنانے کے لیے اپنے ”مائلز“ کا استعمال بھی کیا تھا اور اس عمل میں ایک ہی دن میں 50,000 امریکی ڈالر مالیت کے والمارٹ گفٹ کارڈز کیش کر لیے تھے۔
اسٹوکر نے 451,000 ایئر مائلز کے عوض بولی لگا کر ہٹ سِٹ کام سین فیلڈ کے ایک ایپی سوڈ میں مختصر کردار ادا کرنے کے لیے چیریٹی نیلامی بھی جیتی۔
حالانکہ یونائیٹڈ ایئرلائنز نے کود کو نقصان پہچانے والے اس شخص کو سراہا ہے۔
ائیرلائن نے اپنے نئے پولارس کلبوں کے مینو کو تیار کرنے میں اسٹوکر سے ان کا مشورہ طلب کیا ہے اور اگر انہیں فوری رابطہ قائم کرنے کی ضرورت ہو تو ائیرپورٹ کے ٹارمیک پر ان کیلئے مرسڈیز تیار کھڑی ہے۔
مسٹر اسٹوکر نے اپنی ہزاروں پروازوں کے دوران دل کے دورے سے مرنے والے چار لوگوں کی موت کا مشاہدہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا، ’میں ان میں سے ایک دو سے بھی ملا تھا۔ وہ بس اپنی نشستوں پر ہی دم توڑ گئے۔ آخری آدمی میرے ساتھ بزنس کلاس میں تھا، جو شکاگو سے ناریتا (ٹوکیو) جا رہا تھا۔ انہوں نے اسے کمبل سے ڈھانپ دیا اور سیٹ بیلٹ دوبارہ باندھ دی‘۔