سپریم کورٹ میں نو مئی سے متعلق خصوصی عدالتوں کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران 9 سے 7 رکنی ہونے والا بینچ دوبارہ ٹوٹ گیا، حکومت نے جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض اٹھایا تو انہوں نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا۔
سات رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال سمیت جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی بینچ کا حصہ تھے۔
گزشتہ سماعت میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس میں کہا تھا کہ نہ ازخود نوٹس لیں گے، نہ جوڈیشل آرڈر کریں گے، کوشش ہوگی کہ نتیجہ منگل تک نکل آئے۔
عدالت عظمیٰ نے چاروں صوبوں سمیت اسلام آباد سے گرفتار افراد کی تفصیلات طلب کی تھیں۔
گزشتہ سماعت میں اٹارنی جنرل نے 9 مئی کے بعد گرفتار افراد کے اعداد وشمار عدالت میں پیش کیے تھے، اٹارنی جنرل کی رپورٹ کے مطابق 9 مئی کے واقعات میں ملوث 102 ملزمان فوج کی تحویل میں ہیں۔ پنجاب حکومت نے بھی ایڈووکیٹ جنرل کے ذریعے گرفتار افراد کی فہرست سپریم کورٹ میں جمع کرائی ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت میں جواب جمع کرایا تھا کہ فوج کی تحویل میں کوئی خاتون، کم عمر افراد، صحافی یا وکیل نہیں ہے۔
اب آج ہونے والی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان نے عدالت کو بتایا کہ مجھے ہدایت ہے جسٹس منصورعلی شاہ بینچ کا حصہ نہ ہوں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا تھا مجھ پر اعتراض تو نہیں، میں نے کہا تھا کہ جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض نہیں، لیکن وفاقی حکومت نے جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض اٹھا دیا۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی مرضی سے بینچ نہیں بنایا جائے گا، کس بنیاد پر آپ جسٹس منصورعلی شاہ پر اعتراض اٹھا رہے ہیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے اعتراض اٹھایا گیا ہے۔
وکیل درخواست گزار لطیف کھوسہ نے دوران سماعت کہا کہ آج عدالتی تاریخ کا سیاہ دن ہے۔
جبکہ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ بنیادی حقوق کا کیس ہے بینچ پراعتراض نہیں بنتا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم ابھی اٹھ رہے ہیں، آپس میں مشاورت کے بعد آگے کا لائحہ عمل طے کریں گے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ میرے رشتہ دار ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ ایک درویش انسان ہیں، کیا جسٹس منصورعلی شاہ جسٹس جواد ایس خواجہ کوفائدہ دیں گے؟ کیا حکومت پھر بینچ کو متنازع کرنا چاہتی ہے؟
انہوں نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ بہت حساس ہیں، جسٹس منصورعلی شاہ وہ انسان نہیں کہ ان کی رشتہ داری فیصلے پر اثر انداز ہو، سپریم کورٹ کی تضحیک اور اسے داغدار مت کریں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے الیکشن کے حکم پرعملدرآمد نہ کرنے پر حکمرانوں کے خلاف سخت ایکشن لینے سے گریز کیا، سپریم کورٹ چھڑی کا استعمال نہیں کر رہی مگر دیگر لوگ کس حیثیت میں چھڑی کا استعمال کر رہے ہیں؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمیں بدنام نہ کیا جائے، کیا ہم وزیر اعظم کو بلا کر پوچھیں کہ کیوں ایک جج پر اعتراض کیا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے حکومت کی بہت سے باتوں کو برداشت کیا۔
جس کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے خود کو بنچ سے الگ کرتے ہوئے کہا کہ میں مزید اس بینچ کا حصہ نہیں رہ سکتا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ آپ ایک بہت اچھے کردار اور اچھی ساکھ کے مالک وکیل ہیں، ایک پوری سیریز ہے جس میں بینچ پر بار بار اعتراض اٹھایا جا رہا ہے، پہلے یہ بحث رہی کہ پنجاب الیکشن کا فیصلہ 3 ججوں کا تھا یا 4 کا۔
جس کے بعد جسٹس منصورعلی شاہ بینچ سے الگ ہوگئے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ ہماری حکومت ہمیشہ بینچز کی تشکیل پر بات کرتی ہے، کبھی کہا جاتا ہے بینچ درست نہیں بنایا گیا، آپ ہمیں ہم خیال ججز کا طعنہ دیتے ہیں، آپ کرنا کیا چاہتے ہیں؟ ہم نے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، ہم سمجھتے ہیں یہ وقت ایک قدم پیچھے ہٹنے کا ہے۔
بعد ازاں عدالتی عملے نے کہا چیف جسٹس نیا بینچ تشکیل دیںگے، گیارہ بجے بیچ دوبارہ آئے گا۔
سماعت کے دوبارہ آغاز سے قبل کورٹ روم نمبر ون میں چھ کرسیاں لگائی گٸیں۔
اب بینچ چھ رکنی ہوچکا ہے جس میں چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک نے سماعت کی۔
دوران سماعت چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان ہماری ایک درخواست پر نمبر نہیں لگا، جس پر چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ حامد خان صاحب آپ کو بعد میں سنیں گے، ہم ابھی سیٹ بیک سے ریکور ہو رہے ہیں۔
سماعت کا بقیہ احوال اس خبر میں پڑھیں: فوجی عدالتوں کے خلاف کیس: آئینی بحث کے بجائے دیگرحربے استعمال کیے جا رہے ہیں، چیف جسٹس
یاد رہے کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے چیف جسٹس پاکستان نے 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے اعتراضات کے بعد 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا اور چیف جسٹس نے 7 رکنی نیا بینچ تشکیل دے دیا۔
بعد ازاں چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اب 7 رکنی بینچ ہی کیس کی سماعت کرے گا۔