آج 8 ذوالحج کو مناسک حج کی ادائیگی کا آغاز ہو رہا ہے جس کے ساتھ ہی عازمین حج کے قافلے مکہ مکرمہ سے منی کی جانب روانہ ہونا شروع ہو چکے ہیں۔
8 ذوالحج مناسک حج کی ادائیگی کا پہلا روز ہے، ایک جانب طواف قدوم کرنے کے بعد عازمین حج احرام باندھے خصوصی بسوں اور ٹرینوں کے ذریعے خیمہ کی بستی منی پہنچنا شروع ہوچکے ہیں۔
دوسری جانب لاکھوں عازمین طواف قدوم کر رہے ہیں جب کہ آج نماز ظہر سے قبل 20 لاکھ سے زائد عازمین حج منی پہنچ کر خیموں کی بستی کو آباد کریں گے اور اپنی عبادات میں مشغول ہو جائیں گے۔
مکہ مکرمہ کی مسجد الحرام میں خانہ کعبہ کے گرد حجاج کرام کا ہجوم دیکھنے میں آیا، جہاں 20 لاکھ سے زائد مسلمانوں نے مناسک حج کی ادائیگی شروع کردی۔
اس سے قبل خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کا کہنا تھا کہ اسلام کے پانچویں رکن کی ادائیگی کے لئے 160 ممالک سے 20 لاکھ سے زائد حجاج کرام کی آمد کی توقع کی جارہی ہے لیکن جمعہ کی شام تک 16 لاکھ کے قریب حجاج پہنچ چکے ہیں۔
حج کا باقاعدہ آغاز اتوار کو صبح سویرے کعبہ کے ”طواف“ کے ساتھ ہوا، ایک 65 سالہ مصری عبدالعظیم نے حج کےارکان ادا کرتے ہوئے کہا کہ ”میں اپنی زندگی کے سب سے خوبصورت دن گزار رہا ہوں۔“
ایک ریٹائرڈ شخص جس نے حج کرنے کے لئے 20 برس تک بچت کرتے ہوئے چھ ہزار ڈالر جمع کیئے اور حج کرنے کی سعادت حاصل کی، ان کا کہنا تھا کہ آج میرا خواب پورا ہوگیا ہے۔
حج اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ہے جسے ہر مسلمان کو ذندگی میں ایک مرتبہ ادا کرنا چاہیے۔ حج کی ادائیگی ابتدائی مرحلہ مکہ مکرمہ اور اس کے اطراف میں چار دنوں کے اندر مکمل ہوجاتا ہے۔
اتوار کی رات سے عازمین حج منیٰ کی جانب بڑھنا شروع کردیں گے، جو مسجد الحرام سے تقریباً پانچ کلومیٹر (تین میل) کے فاصلے پر ہے۔ حج کے آغاز ہونے سے قبل عرفات کے مقام کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنا آخری خطبہ دیا تھا۔
مکہ مکرمہ کی مسجد الحرام کے باہر ہزاروں افراد نے نماز ادا کی، جبکہ مرد حجاج نے ایک سادہ سفید لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ اس دوران کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ایمبولینسوں، موبائل کلینک سمیت فائر ٹرک موجود تھے۔
یاد رہے کہ حج ایک بڑا اجتماع ہے جس میں حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانا کسی چیلنچ سے کم نہیں تھا کیونکہ 2015 کی بھگدڑ کی وجہ سے 2,300 حجاج کرام جان کی بازی ہار گئے تھے۔
حج سے متعلق ہی اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے 25 سالہ انڈونیشین طالب علم یوسف برہان کا کہنا تھا کہ میں اپنے جذبات کو بیان نہیں کرسکتا، یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے، میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں اس سال حج کا فریضہ ادا کروںگا۔
حج کا فریضہ ادا کرنے کے لئے حجاج کرام کو رواں برس سخت گرمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چلچلاتی دھوپ سے خود کو گرمی کی شدت سے بچانے کے لیے حجاج سفید چھتریاں اٹھائے ہوئے ہیں، جبکہ پولیس کی جانب سے بھی حجاج کا حج پرمٹ چیک کرنے لئے چوکیاں بھی قائم کی ہیں تاہم درجہ حرارت 45 ڈگری تک ریکارڈ کیا گیا ہے۔
مسجد الحرام کے اندرحجاج کو طبی امداد فراہم کرنے کے لئے ہزاروں پیرامیڈیکس اسٹینڈ بائی پر موجود تھے۔ سعودی حکام نے کہا کہ ہیٹ اسٹروک، ڈی ہائیڈریشن اور تھکن سے بچنے کے لیے 32 ہزار سے زائد ہیلتھ ورکرز موجود رہیں گے۔
حج کی بدولت دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کرنے والا سعودی عرب سالانہ اربوں ڈالر کماتا ہے، جو اپنی معیشت کو فوسل فیول سے انحصار کم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
خیال رہے کہ اس سال 2019 کے مقابلے میں سب سے بڑا اجتماع ہوگا جبکہ 2020 میں صرف 10ہزار کو اجازت دی گئی تھی کیونکہ کورونا کی وجہ سے یہ تعداد2021 میں بڑھ کر تقریباً 59,000 تک پہنچ گئی تھی۔ گزشتہ سال کی 10لاکھ کی حد کو ختم کردیا تھا۔
سعودی بزنس مین سمیر الزفنی نے کہا کہ مکہ اور مدینہ میں ان کے تمام ہوٹل جولائی کے پہلے ہفتے تک ہی بُک ہوچکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس سال ہمارے 67 ہوٹلوں کے گروپ میں ایک بھی کمرہ خالی نہیں ہے۔
اس کے علاہ جمعہ کو شام میں نماز کے بعد مسجد الحرام سے نکلتے ہوئے نائیجر سے تعلق رکھنے والے راموت علی نے پہلی بار حج کرنے کے احساس کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں بہت خوش ہوں۔
سعودی عرب میں صدارت عامہ برائے حرمین شریفین نے رواں سال حج 2023 کے دوران میدان عرفات کی مسجد نمرہ سے خطبہ حج کی 20 زبانوں میں ترجمہ کرنے کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں-
منارۃ الحرمین پلیٹ فارم کے تعاون سے دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کے لیے یوم عرفات کے خطبہ کا بیک وقت انگلش اور اردو سمیت 20 مختلف بین الاقوامی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے گا۔
موبائل فون، صدارت عامہ کی ویب سائٹ، اور منارۃ الحرمین پلیٹ فارم پر خطبہ کا ترجمہ کرنے کے لیے وقف ایپلی کیشن کے ذریعے مختلف زبانوں میں اور بڑے پیمانے پر دنیا کے مسلمانوں تک اسلام کا معتدل پیغام پہنچانے کا اہتمام کیا گیا ہے-
حرمین شریفین انتظامیہ کا کہنا ہے کہ خطبہ حج کے ترجمے کا مقصد حقیقی اسلامی مذہب کی روشن اور مہذب تصویر کو اجاگر کرنا اور اس کے اعتدال پر مبنی، اقدار اور فضائل کو نمایاں کرنا ہے-