فوجی عدالتوں میں عامی شہریوں کے ٹرائل چلانے کے خلاف کیس میں وزیراعظم نے معروف قانون دان اور ایم کیوایم پاکستان کے رہنما بیرسٹر فروغ نسیم کی خدمات حاصل کرلی ہیں۔
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں پرٹرائل چلانے کے خلاف دائر درخواستوں کے کیس میں وزیراعظم شہبازشریف نے سابق وزیر قانون فروغ نسیم کی خدمات حاصل کرلی ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی لارجر بنچ درخواستوں پر کل سماعت کرے گا، اور وزیراعظم کی جانب سے فروغ نسیم لارجر بنچ کے سامنے پیش ہوں گے۔
فوجی عدالتوں میں سویلین مقدمات کیخلاف درخواستیں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، سینیئر وکیل اعتزاز احسن، کرامت علی اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے دائر کر رکھی ہیں۔
درخواست گزاروں نے سویلینز کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی ہے۔
واضح رہے کہ حکومت نے 9 مئی کے واقعات کے بعد فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف مقدمات ملٹری کورٹ میں چلانے کا فیصلہ کیا تھا اور متعدد افراد کے مقدمات فوجی عدالت میں بھجوائے جا چکے ہیں۔
اس سے قبل آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی سربراہی میں ہونے والی فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کے دوران اس عزم کا اظہارکیا گیا تھا کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد اوران کے سہولت کاروں اورماسٹرمائنڈز کو کٹہرے میں لایا جائے گا۔
پنجاب حکومت نے 9 مئی کے واقعات سے متعلق ڈیٹا سپریم کورٹ میں جمع کرایا۔
رپورٹ کے مطابق 9 مئی کےواقعات میں 81 خواتین کو حراست میں لیا گیا جن میں سے 42 کو ضمانت پر رہا کیا گیا جب کہ 39 خواتین جوڈیشل ریمانڈ پر جیلوں میں قید ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ایم پی اوکے تحت 3 ہزار 258 افراد کی گرفتاری کے آرڈر جاری کیے گئے، اس کے تحت 21 افراد جیلوں میں قید ہیں، توڑ پھوڑ کے واقعات میں 3 ہزار50 افراد ملوث پائے گئے جن کیخلاف 51 مقدمات درج ہیں۔
عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں مزید بتایا گیاہے کہ انسداد دہشت گردی قانون کے تحت 1888 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 108 ملزمان جسمانی ریمانڈ اور 1247 جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں، اس قانون کے تحت 33 افراد کی شناخت پریڈ بھی کی گئی۔ 500 افراد کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے رہا کیا گیا، انسدادِ دہشت گردی قانون کے تحت 232 افراد ضمانت پر رہا ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق دیگر قوانین کے تحت 247 مقدمات درج کئے گئے جن 4119 افراد کو گرفتار کیا گیا، 86 ملزمان جسمانی ریمانڈ، 2464 کو جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں، دیگر مقدمات میں 368 افراد کی شناخت پریڈ کی گئی جب کہ اب تک 1201 افراد کو بری اور 3012افرادکومختلف مقدمات میں ضمانت پر رہا کیا جا چکا ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے طلب کیے جانے کے باوجود رپورٹ میں اداروں کی حراست میں موجود بچوں، صحافیوں اور وکلاء کا ڈیٹا شامل نہیں ہے۔