یونان کشتی حادثے کا شکار ہونے والے 14 سالہ پاکستانی بچے ابوذر کی کشتی میں بیٹھنے کے بعد ماں باپ سے کی گئی آخری گفتگو کی ریکارڈنگ آج نیوز نے حاصل کرلی۔
ابوذر عمر میں چھوٹا تھا لیکن ہمت اور استقلال میں بہت بڑا تھا، بدقسمت کشتی میں بیٹھنے کے بعد ماں باپ کو ہی تسلیاں دیتا رہا۔
ابوذر نے اپنے والدین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم کنٹینر سے باہر آکر کشتی میں بیٹھ گئے ہیں، ہم اللہ کے حوالے ہوچلے ہیں، دعا کریں سمندر کا سفر ہے، اللہ کامیاب کرے۔
ابوذر نے اپنے والد سے کہا کہ ابو جی آپ مٹھے چاول بانٹ دینا، سب گھر والوں سے کہنا ٹینش نہ لیں، باقی اللہ کو جو منظور ہوگا وہی ہوگا، امی سے کہنا ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں، ماواں کے سارے لعل میرے ساتھ ہیں۔
14 سالہ بچے ابوذر نے دیگر لڑکوں کے ساتھ نعت پڑھنے کی فوٹیج بھی بھیجی۔
یاد رہے کہ 14 جون کو یونان کے سمندر میں پیش آنے والے خوفناک کشتی حادثے میں کئی پاکستانی جاں بحق اور سینکروں تاحال لاپتہ ہیں، اس حادثے کے مسافروں میں گجرات کا 14 سالہ بچہ ابوذر بھی شامل ہے جو ماں باپ کی غربت ختم کرنے اور چھوٹے معذور بھائی کا علاج کرانے کے لیے گھرسے نکلا تھا۔
گجرات کے نواحی گاؤں ٹاہلی صاحب کا چودہ سالہ ابوذر نویں جماعت کا طالب علم تھا جس کا باپ اسکول وین چلاتا ہے۔ غربت سے تنگ ماں باپ نے ایجنٹ کی باتوں میں آکر کم عمر بیٹے کو اٹلی بھجوانے کے لیے اپنا مکان فروخت کیا۔
بیٹے کے لاپتہ ہونے پرغمزدہ والد محمد پرویز نے بتایا، ’میرا بیٹا کہتا تھا میں تمہاری غربت ختم کروں گا اور اپنے معذور بھائی کا علاج کراؤں گا۔‘
روتی بلکتی ماں نے کہا کہ کہتا تھا، ”روٹی کھائیں کہ بچوں کا علاج کروائیں، میں وہاں جاکرکوئی کاروبار کرلوں گا ، دیہاڑی لگاؤں گا اور پیسے بھیجوں گا تو میرے بھائی کا علاج کروالینا۔ کہتا تھا ماں یہاں علاج کروائیں یا پیٹ بھریں۔ اس نے نویں جماعت سے اسکول چھوڑ کر کہا تھا کہ میں اپنے والد کا ہاتھ بٹاؤں گا تا کہ ہمارے دن پِھرجائیں“۔
والد کا پاکستانی مسافروں سے ناروا سلوک اور انہیں کشتی کے نچلے ڈیک میں رکھنے کے حوالے سے کہنا ہے کہ ہمارا معصوم بچہ ظالموں نے بھوکا رکھ کر مار ڈالا ، ہمارے ساتھ دھوکا ہوا ہے اور یہ حادثہ نہیں قتل ہے۔ ابو ذرکی عمر 14 سال 2 ماہ ہے ، ہم نے ایجنٹ کو 26 لاکھ دینے تھے جس میں سے 20 لاکھ کی ادائیگی کرچکے ہیں اور 6 لاکھ باقی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ حادثہ نہیں بلکہ ایسا جان بوجھ کرکیا گیا، یہ کشتی ڈبوئی گئی ہے ، پاکستانیوں کو 6 روز تک بھوکا رکھا گیا اور انہیں پانی تک نہیں دیا گیا، ہم جب زندہ بچ جانے والوں کے انٹرویو سنتے ہیں تو ہم سے بھی کھایا پیا نہیں جاتا۔
ابوذر کی خالہ نے نمائندہ آج نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایجنٹس نے ان کے گاؤں کے کئی افراد سے 10، 10 لاکھ ایڈوانس لیا ہوا ہے ، کئی لوگ اس وقت بھی لیبیا میں پھنسے ہوئے ہیں ۔
خالہ کے مطابق ایجنٹ نے کہا تھا آپکو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، لیکن انہیں کھانا تک نہ دیا اور تیسرے دن کشتی ہی ڈبو دی۔ اس (ابوذر) نے فون پر کہا تھا مجھے واپس بلوا لومیں مر جاؤں گا یہاں، ہم نے کہا کہ واپس بلوا لیتے ہیں۔ ہمارا چھوٹا سا بیٹا چلا گیا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت وہاں موجود بےیارومددگار افراد کی سلامتی سے متعلق اقدامات اٹھائے۔