سب ڈویژنل ایجوکیشن آفیسر رضوانہ شاہین برکی کی بھانجی نادیہ خان کا کہنا ہے کہ اُن کی خالہ ایک بہادر اور انسان دوست خاتون تھیں، جنہیں تعلیم سے بے حد محبت تھی، اور اسی لئے وہ ایسے پسماندہ علاقوں میں جا کر بچوں کی تعلیم کے لئے کوششیں کرتی تھی جہاں عام طور پر لوگ جانے اور رہنے سے گھبراتے ہیں۔
چار بچوں کی ماں رضوانہ شاہین کو مبینہ طور پر ان کے بیروزگار شوہر نے 17 جو 2023 کو اسکول کے کوارٹر میں چھریوں کے وار سے قتل کردیا تھا۔
آج ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے نادیہ نے بتایا کہ قتل کے وقت وہ لنڈی کوتل میں تعینات تھیں جبکہ اس سے قبل وزیرستان، بنوں اور سوات میں کام کر چکی تھیں۔
جنوبی وزیرستان کے علاقے کانی گرم کے برکی قبیلے سے تعلق رکھنے والی رضوانہ شاہین نے اپنی پوری ذندگی تعلیم کے نام کر رکھی تھی۔
معاشرے کو جوڑنا اور ہر بچے کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر کے اچھی ذندگی دینا ان کا خواب تھا، اور یہی وجہ تھی کہ شوہر کے تشدد کے باوجود اپنے فیملی یونٹ کو جوڑے رکھنے کی اُنہوں نے آخری وقت تک کوشش کی۔
نادیہ کے مطابق رضوانہ کی 12 سالہ ازدواجی ذندگی شوہر کی طرف سے تشدد سے بھرپور تھی۔ کورونا کے دوارن جب وہ ڈومیل بنوں میں تعینات تھیں تو رضوانہ کے شوہر نے انہیں بہمیانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور بات یہاں تک پہنچی کہ شوہر نے انہیں گولی مارنے کی کوشش بھی کی، لیکن اہل علاقہ کی مداخلت پر رضوانہ کو بچا لیا گیا اور گھر والے اسے میکے لے آئے۔
واقعے کا روزنامچہ ڈومیل تھانے میں درج کروایا گیا لیکن اس وقت بھی خوف کی وجہ سے کوئی ڈاکٹر ان کا میڈیکو لیگل کرنے کو تیار نہیں تھا۔
نادیہ نے بتایا کہ رضوانہ کے گھر والوں نے انہیں سمجھایا شوہر نجیب اللہ ایک پر تشدد انسان ہے اور اب قابل بھروسہ نہیں رہا، اس لئے وہ خلع لے لے، لیکن جب نجیب اللہ کو یہ بات پتہ چلی تو وہ صلح صفائی کے لئے آگیا۔ تین ماہ کی مسلسل کوشش کے بعد ایک بار پھر اس نے گھر کو جوڑے رکھنے کا فیصلہ کیا اور شوہر کے پاس واپس چلی گئی۔
نادیہ کے مطابق یہی ان کی سب سے بڑی غلطی ثابت ہوئی کیونکہ ان کا شوہر اچھا ہونے کا صرف ڈرامہ کر رہا تھا۔
نادیہ نے میڈیا میں چھپنے والی اُن خبروں کی بھی تردید کی کہ ان کی لَو میرج ہوئی تھی یا نجیب اللہ ٹی بی کا مریض تھا اس لئے ملازمت نہیں کر سکتا تھا۔
نادیہ کے مطابق وہ اچھا بھلا صحت مند انسان تھا شادی سے قبل ورکنگ فورس اسکول میں ملازمت بھی کرتا تھا، لیکن محنت کی بجائے بس صرف بیوی کے پیسوں پر ذندگی گزارنا چاہتا تھا، اس لئے ملازمت چھوڑ دی۔
بھانجی نادیہ کے لئے ان کی خالہ ان کی آئیڈیل تھیں، لیکن وہ رضوانہ پر شوہر کی طرف سے ہونے والے تشدد پر بہت کڑھتی تھیں، کیونکہ ان کا شوہر عجیب طریقوں سے رضوانہ کو تکلیف پہنچاتا تھا، کھبی سوئیاں چبھو کر تشدد کرتا تو کھبی مارپیٹ۔
جب وہ ڈیوٹی پر ہوتی تب بھی اسے اکیلا نہ چھوڑتا تھا۔ اکثر وہ رضوانہ سے فون بھی لے لیتا تھا تاکہ وہ کسی کو کال نہ کر سکے۔
نادیہ نے یہ بھی بتایا کہ چوکیدار کا وقوعہ کے وقت ڈیوٹی پر نہ ہونا بھی ان کے شوہر کی مرضی تھی کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ چوکیدار وہاں رہے۔
نادیہ خان نے آج ڈیجیٹل کو بتایا کہ رضوانہ کی دو بیٹیاں بلترتیب 6 اور 8 سال کی ہیں جو کہ اس واقعے کی چشم دید گواہ بھی ہیں، لیکن نجیب اللہ انہیں اپنے ساتھ لے گیا اور اب وہ اس کے پاس ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملزم کے اہل خانہ نے ہمیں واقعے کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ ہمیں اس کے بارے میں سوشل میڈیا پر معلوم ہوا اور پوسٹ مارٹم کے بعد ہم رضوانہ کی میت لے آئے۔
نادیہ کے مطابق رشتہ داروں نے رضوانہ کے گھر والوں کو بتایا ہے کہ بچیوں کے چہرے پر زخم ہیں لیکن نہ تو ان کا میڈیکو لیگل کروایا گیا نہ ہی انہیں حکومتی پروٹیکشن میں لیا گیا جو کہ انتہائی ضروری تھا۔
نادیہ نے خیبر پختونخوا کے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر کمیشن سے اپیل کی ہے کہ بچوں کے تحفظ کے لئے انہیں اپنی کسٹڈی میں لیا جائے۔
ملزم نجیب اللہ نے عدالت میں اپنے بیان میں اہلیہ کو قتل کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ رضوانہ اُس سے خلع لینا چاہتی تھی جس کی وجہ سے ان کے درمیان جھگڑے چل رہے تھے اور اس روز تکرار کے دوران غصے میں آکر اس چھریوں کے وار کر کے بیوی کو قتل کر دیا۔ پولیس نے آلہ قتل بھی برآمد کر لیا۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی رضوانہ شاہین برکی نے تعلیم میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ ان کا شاندار سفر پرعزم استاد کے طور پر شروع ہوا اور ان کی غیر معمولی صلاحیتوں نے انہیں محکمہ تعلیم میں انتظامی عہدے تک پہنچایا۔
انہوں نے ایف آر بنوں، سوات اور لنڈی کوتل، ضلع خیبر میں سب ڈویژنل ایجوکیشن آفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں۔
وہ ٹیچنگ مینجمنٹ کی تربیت کے لیے امریکی سفارت خانے کی Almuni بھی تھیں۔
کئی تعلیمی اسکیموں کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل درآمد، انسانی وسائل کا مؤثر انتظام، اور طلبہ کے اندراج کے پروگرام کے لیے ان کی ناقابل فراموش کوششیں ہیں۔