Aaj Logo

شائع 24 جون 2023 03:26pm

داؤد فیملی کی پاکستان کیلئے گراں قدر سماجی خدمات

دنیا ایک قابلِ ذکر پاکستانی شہزادہ داؤد کی موت کے غم میں مبتلا ہے، جنہوں نے کارپوریٹ سیکٹر میں ایک علیحدہ مقام بنایا اور ان کی انسان دوست کاوشوں نے ہمارے معاشرے پر انمٹ نقوش چھوڑے۔

شہزادہ داؤد اپنے 19 سالہ بیٹے سلیمان کے ساتھ بحر اوقیانوس میں تین دیگر مہم جوؤں کے ساتھ ایک انہونی میں جان گنوا بیٹھے۔ ان کے ساتھ برطانوی تاجر اور ایکسپلورر، ہمیش ہارڈنگ، فرانسیسی ڈی سی ایکسپلورر اور ٹائٹینک کے ماہر پال ہنری نارجیولیٹ، اور اوشین گیٹ کے سی ای او اسٹاکٹن رش جو ڈوبنے والی آبدوز کے مالک بھی تھے، لاپتا ہیں۔

شہزادہ داؤد کو مشہور سمندری جہاز ٹائٹینک سے متعلق تمام چیزیں جاننے کا شوقین تھا، یہ جہاز 1912 میں ایک آئس برگ سے ٹکرانے کے بعد ڈوب گیا تھا۔

اس سال فادرز ڈے کے موقع پر انہوں نے زندگی کی یادگار مہم کیلئے ایک جگہ بک کرائی۔

وہ اور ان کا 19 سالہ بیٹا سلیمان، بحر اوقیانوس کی برفیلی گہرائیوں کا سفر کرنے اور ٹائٹینک کے ملبے کو قریب سے دیکھنے کے لیے راوانہ ہوئے۔

لیکن، یہ جستجو ان کی آخری جستجو ثابت ہوئی۔

آبدوز آر ایم ایس ٹائٹن کا پانی میں اترنے کے ایک گھنٹے بعد رابطہ منقطع ہو گیا۔ تلاش اور ریسکیو ٹیمیں روانہ کی گئیں، دنیا کسی معجزاتی خبر کی منتظر تھی۔

تاہم، گزشتہ رات، امریکی کوسٹ گارڈ نے وہ اطلاع دی جو کوئی سننا نہیں چاہتا تھا۔

کوسٹ گارڈ نے بتایا کہ ”پریشر چیمبر کو نقصان“ پہنچنے کی وجہ سے آبدوز زیر آب پھٹ گئی تھا جس کے نتیجے میں جہاز میں سوار تمام افراد ہلاک ہو گئے۔

ایک تحریری بیان میں، داؤد خاندان نے بچاؤ کے عمل میں حصہ لینے والوں اور ان کی کوششوں پر شکریہ ادا کیا اور اپنے ”ناقابل تصور نقصان“ پر ”گہرے غم“ کا اظہار کیا۔

شہزادہ داؤد کون؟

شہزادہ داؤد ایک انتہائی کامیاب کاروباری کیریئر کے حامل شخصیت تھے، جنہوں نے اینگرو کارپوریشن میں اپنا نام بنایا، جہاں وہ گزشتہ 20 سالوں تک ڈائریکٹر رہے۔

شہزادہ داؤد 1975 میں راولپنڈی میں پیدا ہوئے، 1998 میں بکھنگم یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا، وہ اینگرو کارپوریشن کے وائس چئیرمین تھے۔

کراچی میں قائم ان کی دو کمپنیوں میں تقریباً چھ ہزار لوگ برسر روزگار ہیں۔ اور 860 ملین ڈالر 2020 میں صرف ایک کمپنی کی آمدن تھی۔

راولپنڈی میں پیدا ہوئے داؤد اپنی کاروباری ذہانت کی وجہ سے بے حد قابل احترام تھے اور ورلڈ اکنامک فورم کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ میں بھی کئی بار خطاب کر چکے تھے۔

تاہم، وہ اپنے انسان دوست فلاحی کاموں کے لیے مشہور تھے، جن کیلئے انہیں بے شمار افراد یاد رکھیں گے۔

ان میں سے اکثر لوگوں سے وہ بذات خود کبھی نہیں ملے، لیکن ان کی زندگیوں کو داؤد نے انتہائی گہرائی سے متاثر کیا۔

اینگرو کی جانب سے جاری بیان میں، داؤد کی ”بے وقت موت“ پر افسوس کا اظہار کیا گیا، اور انہیں بنیادی طور پر ”کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کے وکیل“ کے طور پر بیان کیا گیا۔

سماجی بہبود سے اپنی وابستگی کے لیے مشہور خاندان میں پیدا ہوئے داؤد کو دوسروں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لانے کا جذبہ وراثت میں ملا۔

اپنی پرورش اور ذاتی اقدار سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے انہوں نے ایک غیر معمولی انسان دوست سفر کا آغاز کیا، جس نے پاکستان اور اس سے باہر سماجی ترقی کے منظر نامے کو نئی شکل دی۔

اپنی فیملی کی انسان دوست ”داؤد فاؤنڈیشن“ کے ایک ٹرسٹی اور فعال رکن کے طور پر، انہوں نے لاتعداد زندگیوں کو بہتر بنانے اور کمیونٹیز کو تبدیل کرنے میں مدد کرنا اپنی زندگی کا مشن بنایا۔

داؤد فاؤنڈیشن ایک ایسی میراث ہے جس پر ان کے خاندان کو بجا طور پر فخر ہوگا۔

وہ داؤد فاونڈیشن کے تحت پاکستان میں تعلیم سے محروم بچوں کی پڑھائی کا بندوبست کرتے تھے اور لاتعداد اسپتالوں میں ان کی خدمات پیش پیش تھیں۔

داؤد پبلک اسکول، داؤد کالج آف انجینئیرنگ اور کراچی اسکول آف بزنس اینڈ لیڈر شپ کے علاوہ بھی بہت سے تعلیمی پروکیجٹس داؤد فاؤنڈیشن کے تحت چل رہے ہیں۔

داؤد پبلک اسکول کراچی، لڑکیوں کے لیے شہر میں سب سے بڑا اسکول ہے جہاں طالبات کو بہترین تعلیم سے روشناس کیا جاتا ہے۔ داؤد پبلک اسکول میں کیمبریج کے تحت ہونے والے اے اور او لیول کے پروگرامز دیے جاتے ہیں۔

داؤد فیملی کی جانب سے سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) کراچی کو دو بلاک عطیہ کئے گئے جن میں حنیفہ سلیمان داؤد اونکولوجی سینٹر اور سلیمان داؤد ٹرانسپلانٹ سینٹر شامل ہیں۔

شہزادہ داؤد کی رہنمائی میں، داؤد فاؤنڈیشن تبدیلی کے ایک لیڈر کے طور پر ابھری، جس نے تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، ڈیزاسٹر ریلیف، فنون، ثقافت اور سماجی بہبود جیسے اہم شعبوں پر توجہ مرکوز کی۔

تزویراتی اقدامات اور اختراعی پروگراموں کے ذریعے داؤد نے بے شمار زندگیوں کو تبدیل کیا، پسماندہ لوگوں کو بااختیار بنایا، اور ترقی کے مواقع فراہم کیے۔

تعاون اور اجتماعی عمل کی طاقت کو تسلیم کرتے ہوئے، داؤد نے کارپوریٹ سیکٹر کے اندر سماجی ذمہ داری کو آگے بڑھانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔

اینگرو کارپوریشن میں ایک رہنما کے طور پر انہوں نے پائیدار ترقی، کمیونٹی کی مصروفیت، اور کارپوریٹ انسان دوستی کی حمایت کی۔

ان کی کوششوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اینگرو معاشرے پر کاروبار کے مثبت اثرات کی ایک روشن مثال بنے۔

تعلیم، ماحولیاتی تحفظ، زراعت، اور ہنرمندی کی ترقی کو فروغ دینے والے اقدامات کے ذریعے، داؤد نے کارپوریٹ کامیابی اور سماجی بہبود کے درمیان خلا کو ذمہ دار کارپوریٹ شہریت کی ایک پائیدار میراث چھوڑ کر پُر کیا۔

تاہم، داؤد کا فلاحی کام انفرادی تنظیموں کی مدد سے مزید آگے بڑھا۔

ہم خیال تنظیموں کے ساتھ شراکت داری اور اتحاد قائم کرکے انہوں نے اپنے اقدامات میں اضافہ کیا اور ضرورت مندوں کے لیے فوائد کو توسیع دی۔

ان کی دور اندیشی نے دوسروں کو بھی ان کاموں میں شامل ہونے اور ایک زیادہ منصفانہ اور ہمدرد دنیا بنانے کے مشترکہ مقصد کے لیے کام کرنے کی ترغیب دی۔

شہزادہ داؤد کو ان کی تبدیلی پسند انسان دوستی کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر پہچانا اور مانا گیا، ان کے کام کے لیے انہیں متعدد تعریفی سندیں اور ایوارڈز ملے۔

ان سے واقفیت رکھنے والے سبھی افراد کا کہنا ہے کہ ، شہزادہ داؤد کو ان کی عاجزی کیلئے پہچانا جاتا تھا۔

شہزادہ داؤد کے انتقال سے ایک خلاء پیدا ہو گیا ہے جو مخیر طبقے اور ان گنت زندگیوں کے اندر سے محسوس کیا جائے گا۔

Read Comments