سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ بڑے پیمانے پر شیئر کی جا رہی ہے جس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے روس میں قرآن پاک کی بےحرمتی کے مجرموں کو سزائے موت دینے کا اعلان کیا ہے۔
اس پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص روس میں قرآن کی بےحرمتی کا کا مرتکب پایا گیا تو حکومت اسے شرعی قوانین کے مطابق سزا دے گی۔
کئی ویب سائٹس پر دعویٰ کیا گیا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایک نیا قانون متعارف کرایا ہے جس کے تحت قرآن پاک کے بےحرمتی کے مرتکب افراد کو سزائے موت دی جائے گی۔
روسی حکومت نے ایسا کوئی نیا قانون متعارف نہیں کرایا جس کے تحت قرآن کے بےحرمتی کرنے والوں کے لیے سزائے موت کا اعلان کیا جائے۔
حقیقیت یہ ہے کہ روس کے شہر وولگوگراڈ کی ایک مسجد کے سامنے 19 سالہ نوجوان کی جانب سے قرآن پاک کا نسخہ نذر آتش کرنے کے حالیہ واقعے کے جواب میں صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا تھا کہ مجرم کو روس کے مسلم اکثریتی علاقوں میں واقع حراستی مرکز میں قید کیا جائے گا۔
لہٰذا پوسٹ میں کیا گیا دعویٰ غلط ہے۔
ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا واقعی روسی حکومت نے ایسے مجرموں کے لیے سزائے موت سے متعلق نئی قانون سازی جاری کی ہے تو ہمیں وہاں کی کسی بھی سرکاری ویب سائٹ پر ایسی کوئی معلومات نہیں ملیں۔
روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی تاس کی جانب سے شائع کیے جانے والے مضمون میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے والے سزا یافتہ شخص کی حراست کے بارے میں تازہ بیان کی اطلاع دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ روس میں میں سزائے موت پر پابندی عائد ہے، یہ پابندی سابق روسی صدر بورس یلسن نے 1996 میں عائد کی تھی جو 1999 میں روس کی آئینی عدالت کی توثیق کے بعد نافذ العمل ہے۔
موت کی سزا کو دوبارہ نافذ کرنے کے خلاف اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے پیوٹن نے حال ہی میں کہا تھا، ”جہاں تک سزائے موت کا تعلق ہے، آئینی عدالت کے چیئرمین ویلری زورکن نے حال ہی میں ججز کنونشن میں اس کے بارے میں بات کی ہے۔“
سزائے موت کی بحالی کے حامیوں کے لیے پیوٹن کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی۔ لہٰذا میرا موقف تبدیل نہیں ہوا ہے۔
لہذاٰ ایسی تمام خبریں غلط ہیں جن میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایسا کوئی نیا قانون متعارف نہیں کرایا جس کے تحت قرآن پاک کی بےحرمتی کرنے والوں کے لیے سزائے موت کا نفاذ کیا گیا ہو۔