روس میں صدر پوٹن کے خلاف ایک مسلح بغاوت ہوئی ہے تاہم یہ بغاوت روسی فوج کی جانب سے نہیں بلکہ ایک نجی فوج ویگنر گروپ کی جانب سے کی گئی ہے۔ بہت سے عالمی تجزیہ کار روسی ویگنر گروپ کا موازنہ امریکہ کی بلیک واٹر کمپنی سے کرتے ہیں جو بدنام ہونے کے بعد کئی مرتبہ نام تبدیل کرچکی ہے اور آج کل ’اکیڈمی‘ کہلاتی ہے۔
پچھلے مہینے تک ویگنر گروپ کے ہزاروں نجی فوجی اہلکار یوکرین میں روسی فوجیوں کے شانہ بشانہ لڑ رہے تھے۔ برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کے مطابق حال ہی میں ویگنر گروپ کے فوجیوں نے یوکرینی افواج سے باخموت شہر چھیننے کے لیے طویل اور مہنگی جھڑپ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
ویگنر گروپ اسی طرح روسی فوج کی معاونت کر رہا تھا جس طرح بلیک واٹر نے عراق اور افغانستان میں امریکی افواج کے لیے کام کیا۔ یعنی وہ لڑائیاں جو باقاعدہ فوج کے اہلکار نہیں لڑ پا رہے تھے نجی فوج نے تمام قوانین اور اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لڑیں اور جیت لیں۔
اس طرح ویگنر گروپ پچھلے مہینے تک روسی صدر پوٹن کا اہم اتحادی تھا۔
امریکہ کے فارن پالیسی میگزین کا کہنا ہے کہ ویگنر گروپ کوئی ایک کمپنی نہیں بلکہ یہ مختلف کاروباروں کا مجموعہ ہے اور اس کا روس کے سیکیورٹی اپریٹس سے گہرا تعلق ہے۔ یہ بیک وقت لڑائیاں بھی لڑتا ہے اور روس کے لیے وسائل بھی جمع کرتا ہے۔
جریدے کے مطابق ویگنر گروپ سب سے پہلے 2014 میں یوکرین میں سامنے آیا تھا جہاں اس نے کریمیا پر قبضے میں روسی افواج کی مدد کی تھی۔
ویگنر گروپ کے سربراہ یوگِینی پریگوژین روسی صدر ولامیر پیوٹن کے قریبی دوست تھے جنہوں نے گروپ کی مالی پشت پناہی کی اور اسی بنا پر امریکا نے کئی بار ان پر پابندیاں عائد کیں۔
اب پریگوژن پوٹن کے خلاف بغاوت کر چکے ہیں۔
امریکہ میں ویگنر گروپ کے خلاف خاصی مخاصمت پائی جاتی ہے کیونکہ امریکی سیاستدان اور تجزیہ کار اسے پوٹن کا آلہ کار سمجھتے رہے ہیں۔
فارن پالیسی میگزین کے مطابق ویگنر گروپ پر 2016 اور 2018 میں امریکا کے انتخابات میں مداخلت کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔
حالیہ بغاوت کے بعد امریکیوں کا کہنا ہے کہ روس نے اپنے ساتھ ہی لڑائی شروع کردی ہے۔
بی بی سی کے مطابق چیچنیا میں روسی فوجی افسر ویگنر کا پہلا فیلڈ کمانڈر تھا اور اس نے ویگنر گروپ کا نام اپنے سابقہ ریڈیو کال سائن کے نام پر رکھا تھا۔
کریمیا میں روس کی مدد کرنے کے علاوہ 2015 سے ویگنر گروپ کے فوجی شام میں ہیں، جو حکومت کی حامی افواج کے ساتھ مل کر لڑ رہے ہیں اور آئل فیلڈز کی حفاظت کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ویگنر گروپ کے فوجی لیبیا میں بھی موجود ہیں جو جنرل خلیفہ حفتر کی وفادار افواج کی حمایت کر رہے ہیں جب یہ گروپ سوڈان میں بھی متحرک ہے۔
ویگنر گروپ باضابطہ طور پر پی ایم سی ویگنر کہلاتا ہے۔
2014 میں یہ ایک خفیہ تنظیم تھی جو زیادہ تر افریقا اور مشرق وسطیٰ میں کام کرتی تھی اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس صرف 5 ہزار جنگجو تھے جن میں زیادہ تر روس کی ایلیٹ رجمنٹ اور خصوصی افواج کے سابق فوجی شامل تھے۔
برطانوی وزارت دفاع کا چند ماہ قبل کہنا تھا کہ ویگنر گروپ تقریباً یوکرین میں 50 ہزار جنگجوؤں کی کمانڈ کر رہا ہے اور یوکرین کی مہم کا ایک اہم جزو بن گیا ہے۔
وزارت دفاع نے کہا کہ ویگنر گروپ نے گزشتہ برس بڑی تعداد میں بھرتیاں شروع کی کیونکہ روس کو فوج کے لیے لوگوں کو تلاش کرنے میں دشواری کا سامنا تھا۔
امریکی قومی سلامتی کونسل کا کہنا تھا کہ یوکرین میں ویگنر گروپ کے تقریباً 80 فیصد فوجیوں کو سے نکالا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق نجی فوجیں روس میں غیر قانونی ہیں تاہم ویگنر گروپ نے گزشتہ سال ایک کمپنی کے طور پر رجسٹر کیا اور سینٹ پیٹرزبرگ میں ایک نیا ہیڈکوارٹر قائم کیا۔
سربراہ ویگنر گروپ نے بغاوت کا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے روسی فوجیوں کے تشدد کے خلاف آخری حد تک جانے کا فیصلہ کیا جب کہ ویگنر گروپ نے یوکرین میں روسی ہیلی کاپٹر گرانے کا بھی دعویٰ بھی کیا تھا۔
بانی ویگنر گروپ کا ایک ویڈیو بیان میں کہنا تھا کہ روسی وزیر دفاع نے فوجیوں کو مارنے کا منصوبہ بنایا۔ دوسری جانب روسی وزارت دفاع نے ویگنر گروپ کے سربراہ کے الزام کی تردید کردی۔
روسی حکومت نے مسلح بغاوت اور فوجی بغاوت کے الزام میں ویگنر کے سربراہ کے خلاف مجرمانہ تحقیقات شروع کردیں جب کہ ویگنر گروپ کے اہلکاروں کو اپنے ہی سربراہ کو گرفتار کرنے کی ہدایت کردی ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ویگنر گروپ نے روستوف کے علاقے میں روسی فوجی ہیڈکوارٹر کا کنٹرول شدید جھڑپوں کے بعد سنبھال لیا جس کے بعد روسی دارالحکومت ماسکو میں سکیورٹی سخت کردی گئی جب کہ اس حوالے سے صدر ولادمیر پیوٹن کو بھی آگاہ کردیا گیا اور انہیں محفوظ بنکر میں منتقل کردیا ہے۔