سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں مقدمات بھیجنے کے حوالے سے اپنا نوٹ جاری کردیا، 30 صفحات پر مشتمل نوٹ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری ہونے کے بعد ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا بھیجا گیا نوٹ 30 صفحات پر مشتمل ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا نوٹ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری ہوا اور پھر کچھ ہی دیر بعد نوٹ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔
مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں کیخلاف حکم امتناع سے سپریم کورٹ کا انکار، مقدمات کا ریکارڈ طلب
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا نوٹ اردو اور انگلش میں جاری کیا گیا۔ نوٹ کے ہمراہ انکوائری کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے جواب کی کاپی بھی منسلک کی گئی۔
نوٹ کے ہمراہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کو بینچز سے الگ ہونے کے حوالے سے 17 مئی کو لکھا گیا لیڑ بھی جاری کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: بغاوت پر سویلین کا خصوصی عدالت میں ٹرائل ہو سکتا ہے، چیف جسٹس
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے نوٹ میں کہا کہ سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا نفاذ صرف چیف جسٹس اور 2 سینئر ججز پر ہوتا ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بعد جسٹس سردار طارق نے بھی بینچز میں بیٹھنے سے کنارہ کشی اختیار کی، بعد میں جسٹس سردار طارق نے صرف 184(3) کے مقدمات میں نہ بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے نوٹ میں کہا کہ 5 ستمبر 2014 سے میری تعیناتی عدالت عظمیٰ میں ہوئی تب سے آج تک کبھی کسی مقدمے کی سماعت سے گریز نہیں کیا، نہ کبھی رجسٹرار آفس کو کسی نوعیت کا مقدمہ لگانے یا نہ لگانے کا کہا، ہمیشہ کوشش رہی کہ مقدمے کے ہر فریق کو ایک نظر سے دیکھوں اور ہر فیصلہ ایک ہی پیمانے سے آئین و قانون کے مطابق کروں۔
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج نے کہا کہ پوری سراحت سے کہتا ہوں کہ خود کو سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے خلاف مقدمے سے دستبردار نہیں کر رہا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی معطلی کے بعد سے عدالت میں نہیں بیٹھا، اب اگر میں یہ مقدمات سنوں تو میں اپنے آئینی و قانونی مؤقف کی خلاف ورزی کروں گا۔
انہوں نے اپنے نوٹ میں کہا کہ آج دن تک چیف جسٹس پاکستان نے میرے مؤقف کی تردید نہیں کی بلکہ حضور نے تو جواب دینا بھی گوارہ نہیں کیا، مجھے ادراک ہے کہ چیف جسٹس نے اپنے ساتھیوں کو بلا وجہ غیر ضروری کشمکش میں الجھا دیا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے نوٹ میں کہا کہ مجھ ناچیز کی رائے میں عدالت عظمٰی کے سربراہ کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے، عدالت عظمٰی جیسا آئینی ادارہ فرد واحد کی مرضی سے نہیں چل سکتا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا اطلاق چیف جسٹس اور دو سینئر ججز پر ہوتا ہے۔
انہوں نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ جسٹس طارق مسعود نے بھی شروع میں کسی بینچ میں بیٹھنے سے کنارہ کشی اختیار کی، جسٹس طارق مسعود کے مؤقف کا احترام کرتا ہوں اسی طرح وہ میرے مؤقف کا احترام کرتے ہیں، سینئر ترین جج کی حیثیت میں سمت کو درست رکھنا میرا فریضہ ہے۔
سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس کا کہنا تھا ججز کا گلدستہ اپنی مہک سے فضا کو معطر رکھے گا، کسی کو شک نہ ہو مخصوص فیصلے کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دیا گیا، مجھ سے چیف جسٹس نے 16 مئی کو اچانک تحریری طور پر دریافت کیا کہ میں کب تک چیمبر ورک کرنا چاہتا ہوں۔
انہوں نے اپنے نوٹ میں کہا کہ چیف جسٹس کو 17مئی کو 5 صفحات پر مشتمل جواب ارسال کیا، چیف جسٹس کو جواب میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا ایک بار پھر حوالہ دیا، نشاندہی کی کہ مقدمات کی سماعت کے لیے بینچ کی تشکیل چیف جسٹس اور دو سینئر ججز پر مشتمل کمیٹی کرے گی، اس قانون پر عمل نہیں کیا گیا کیونکہ عدالت عظمیٰ نے قانون کو جنم لینے سے پہلے ہی معطل کر دیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کا مزید کہنا تھا کہ میں نے تحریری جواب میں نشاندہی کی قانون کے خلاف درخواستیں منظور ہوں گی یا مسترد، اگر درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں تو درمیانی مدت میں عدالت کو چلانا کیا اس قانون کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ معزز چیف جسٹس نے مجھے ایک مخمصے میں ڈال دیا ہے، مخمصے سے اسی وقت نکلا جاسکتا ہے جب اس قانون کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ کریں یا حکم امتناع واپس لیں۔
یاد رہے کہ نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے 9 رکنی بینچ پر اعتراضات اٹھائے تھے۔
خیال رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا نوٹ پہلے بھی ایک مقدمے میں اپ لوڈ ہونے کے بعد سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے ہٹایا گیا تھا۔
اس سے پہلے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا 6 رکنی بینچ کو غیر قانونی قرار دینے سے متعلق نوٹ بھی عدالت کی ویب سائٹ سے ہٹایا گیا تھا۔
جسٹس فائز عیسٰی نے 184/3 کے رولز بنانے تک مقدمات ملتوی کرنے کا حکم دیا تھا، انہوں نے یہ حکم حافظ قرآن کو اضافی نمبروں کے ازخود نوٹس میں دیا تھا۔
عدالتی حکم کو رجسٹرار کے سرکلر کے ذریعے اور بعد ازاں 6 رکنی بینچ نے ری کال کیا تھا۔