امریکا میں پہلی بار دو کمپنیوں کو جانوروں کے خلیے سے تیار کردہ لیبارٹری میں بنے گوشت (چکن )کی فروخت کی منظوری دے دی گئی۔
’اپ سائیڈ فوڈز‘ اور ’گڈ میٹ‘ نامی دو کمپنیوں کو اس فروخت کی اجازت سے لیبارٹری میں تیارکردہ گوشت صارفین کو فروخت کرنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔
یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نومبر 2022 میں لیب میں تیارکردہ گوشت کو کھانے کے لیے محفوظ قراردے چکی ہے،۔
سی ای او اپ سائیڈ اوما والیٹی نے اس اقدام کو ’’خواب کا سچ ہونا‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ نئے دور کے آغاز کی نشاندہی کرتا ہے۔
لیبارٹری میں تیار شدہ گوشت افزائش شدہ گوشت کے برعکس مصنوعی طور پر تیارکیا جاتا ہے تاہم اس میں انوروں کی پروٹین ہی شامل ہوتی ہے۔چونکہ اس کی پیداوار میں لاگت بہت زیادہ آتی ہے، اس لیے اوسط امریکیوں کے لیے اس گوشت کی راتوں رات دستیابی فی الحال متوقع نہیں ہے۔
تاہم مہنگے اور اعلیٰ ریسٹورنٹس نے اس گوشت کے استعمال کیلئے معاہدے کرلیے ہیں۔
ایک کمپنی کا پہلا آرڈر سان فرانسسکو میں بار کرین کے معروف شیف ڈومینک کرین کے ریستورنٹ میں پکایا بھی جاچکا ہے جبکہ دوسری کمپنی ’گڈ میٹ‘ کا پہلا آرڈر معروف شیف جوز اینڈریس کو فروخت کیا جائے گا۔
گوشت تیارکرنے والوں نے اس بات پر فخر کا اظہارکیا کہ مصنوعی گوشت ’’اخلاقی‘‘ لحاظ سےبہتر متبادل ہے، کیونکہ اس کیلئے کسی جانور کی جان نہیں لی جاتی ۔
گوشت کی تیاری کیلئے زندہ جانور یا فرٹیلائزڈ سیل سے خلیات لیکرانہیں اسٹیل کے ٹینکوں میں رکھ کر کاشت کی جاتی ہے،اس عمل کے دوران اسے غذائی اجزاء بھی دیے جاتے ہیں جو جانور کھاتے ہیں۔ اس کے بعد اس گوشت کو کٹلیٹس، فلے، نگیٹس یا ساتے کی شکل میں ڈھال دیا جاتا ہے۔
اس سے قبل 2020 میں سنگاپور کی ایک کمپنی ’جسٹ ایٹ‘ کو بھی مصنوعی طریقے سے گوشت تیار رنے کی اجازت دی گئی تھی۔
لیبارٹری میں تیارکردہ گوشت کو ماحول دوست کے متبادل کے طور پرپیش کیا جا رہا ہے۔ تاہم یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ جدید گوشت ماحول کے لیے اتنا اچھا بھی نہیں جتنا کہ سمجھا جارہا ہے گوشت کی پیداوار کے تمام مراحل میں توانائی خرچ ہوتی ہے اور جن گرین ہاؤس گیسز کا اخراج ہوتا ہے، وہ روایتی گوشت کی تیاری کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔